بھنڈی
nil
فصل کے بارے
پیداواری منصوبہ برائے بھنڈی توری 2020-21
اہمیت
بھنڈی توری موسم گرما کی ایک نقدآور اور مقبول سبزی ہے۔ویسے تو بھنڈی توری پنجاب کے اکثر علاقوں میں کاشت کی جاتی ہے تاہم زیادہ کاشت کمالیہ،ساہیوال،چشتیاں اور فیصل آباد میں ہوتی ہے۔بھنڈی توری میں حیاتین،معدنی نمکیات،لوہا،چونا،آیوڈین اور فاسفورس کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔یہ جسم کو متوازن رکھتی ہے اور اضافی وزن کم کرتی ہے۔
کاشتکار حضرات سفارش کردہ پیداواری ٹیکنالوجی اپنا کر بھنڈی توری کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرسکتے ہیں۔پچھلے پانچ سالوں میں پنجاب میں بھنڈی توری کے زیر کاشت رقبہ، پیداواراور فی ایکڑ پیداوار دیئے گئے گوشوارہ میں درج ہے۔
بھنڈی توری کا زیر کاشت رقبہ، پیداوار اور اوسط پیداوار
سال | رقبہ ہزار ہیکٹر | رقبہ ہزار ایکڑ | پیداوار ہزار ٹن | اوسط پیداوار کلوگرام فی ہیکٹر | اوسط پیداوار من فی ایکڑ | |
---|---|---|---|---|---|---|
2015-16 | 5.909 | 14.601 | 67.057 | 11349 | 123.05 | |
2016-17 | 5.932 | 14.658 | 68.056 | 11473 | 124.39 | |
2017-18 | 5.920 | 14.630 | 68.589 | 11585 | 125.61 | |
2018-19 | 5.922 | 14.634 | 70.438 | 11894 | 128.96 | |
2019-20 | 5.841 | 14.434 | 7.739 | 12110 | 131.30 |
بیج
شرح بیج
بھنڈی توری کے لیے اچھے اُگاؤ والا10 سے12کلو گرام بیج فی ایکڑکافی ہوتا ہے۔
سفارش کردہ قسم
"سبزپری"محکمہ کی سفارش کردہ قسم ہے جو کیڑوں اور بیماریوں کے خلاف بہتر قوتِ مدافعت رکھتی ہے۔اس کے علاوہ سفارش کردہ یا ہائبرڈ اقسام بھی کاشت کی جا سکتی ہے۔
کاشت
وقت کاشت
پہلی فصل وسط فروری تامارچ میں کاشت کی جاتی ہے جو اپریل سے ستمبر تک پھل دیتی ہے جبکہ دوسری فصل وسط جون تاوسط جولائی میں کاشت ہوتی ہے جس کا پھل اگست تا نومبر حاصل ہوتا ہے۔
موزوں زمین اور اس کی تیاری
بھنڈی توری کی اچھی پیداوار کے لئے بہترنکاس والی زرخیز میرا زمین موزوں ہے۔بوائی سے ایک ماہ پہلے کھیت کو اچھی طرح ہموار کر کے 10سے12ٹن فی ایکڑ گوبر کی مکمل گلی سڑی کھاد ڈال لیں اور یکساں بکھیر کر 2سے3مرتبہ ہل چلاکر اسے اچھی طرح زمین میں ملا دیں۔بعدازاں کھیت کو پانی لگا دیں تاکہ گوبر کی کھاد کے ساتھ آئے ہوئے اور کھیت میں پہلے سے موجود جڑی بوٹیوں کے بیج اُگ آئیں۔کاشت سے پہلے دو تین بار ہل اور سہاگہ چلا کر زمین بوائی کے لیے تیار کر لیں۔اس طریقہ سے جڑی بوٹیاں بھی تلف ہو جائیں گی۔
طریقہ کاشت
تیار شدہ زمین میں اڑھائی فٹ کے فاصلہ پر پٹڑیاں بنا ئیں اوران کے دونوں کناروں پر 1انچ گہری لکیریں نکال لیں۔4انچ کے باہمی فاصلہ پر2تا3 بیج فی چوپا/ چوکا کریں۔
بیماریاں
سبزیوں کی بیماریاں اور ان کا انسداد
بیماری/ سبزیاں | علامات | تدارک |
---|---|---|
روئیں دار پھپھوند کھیرا،گھیا کدو،چپن کدو،حلوہ کدو،گھیا توری، گوبھی، بند گوبھی، کریلا،توبوز، خربوزہ اور مٹر۔ |
توں پر نچلی سطح پر نمدار دھبے ظاہر ہوتے ہیں۔یہ دھبے نوکدار اور پیلے ہوتے ہیں جو بعد میں گہرے بھورے رنگ کے ہو جاتے ہیں۔یہ دھبے تیزی سے پھیلتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے پودے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں پودے کے تمام پتے سوکھ جاتے ہیں اور پودا مرجھا جاتا ہے۔بیماری15سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور 80فیصد سے زیادہ نمی اور ابر آلود موسم میں تیزی سے پھیلتی ہے۔ |
|
سفوفی پھپھوند گاجر،کھیرا،گھیا کدو، چپن کدو، لہسن،پیاز، خربوزہ،تربوز،کریلا اور مٹر۔ |
پتوں کی نچلی سطح پر سفید رنگ کے گول گول دھبے نمودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ان دھبوں میں سفید رنگ کا پاؤڈر بھی موجود ہوتا ہے۔آہستہ آہستہ یہ دھبے پودوں کے دیگر حصوں مثلاً تنے اور پھل وغیرہ پرظاہر ہوتے ہیں۔ شدید حملے کی صورت میں پتے بھورے رنگ کے ہو کر مرجھا جاتے ہیں۔ پھلوں کی افزائش رُک جاتی ہے اور اکثر اوقات پھل کا ذائقہ بھی متاثر ہو جاتا ہے۔ 20سے25 سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور فضا میں 50فیصد سے کم نمی کی وجہ سے بیماری کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ |
|
مرجھاؤ کھیرا،گھیا کدو، چپن کدو،حلوہ کدو،گھیا توری،کریلا،تربوز، خربوزہ،تر، ٹماٹر، مرچ،سبز مرچ، شملہ مرچ اور مٹر وغیرہ۔ |
یہ بیماری زِیر زمین پھپھوندی کی وجہ سے ہوتی ہے،حملہ کی صورت میں پودے کو نمکیات اور پانی کی ترسیل رُک جاتی ہے اور اس کی جڑیں گل جاتی ہیں۔پودے کے تنے پر موجود پتے سوکھ جاتے ہیں اور پودا ایک سے دو دنوں میں مر جاتا ہے۔یہ بیماری فصل پر کسی بھی وقت حملہ کر سکتی ہے۔ |
|
جنوبی جھلساؤ گاجر،ٹماٹر،بینگن،حلوہ کدو،چپن کدو، گھیا توری، تربوز،خربوزہ، کھیرا،مرچ،شملہ مرچ وغیرہ۔ |
بیماری کا حملہ زیادہ تر تنے کے اس حصے پر ہوتا ہے جو زمین سے ذرا اوپر یا زمین میں دھنسا ہوا ہوتا ہے،پھپھوند کی افزائش کی وجہ سے تنا گل جاتا ہے اور پھل بھی جو زمین کے ساتھ پڑاہوا ہے، متاثرہ پودے کے تنے سے سفید رنگ کی دھاگہ نما گوند نکل آتی ہے اور اگر متاثرہ پودے کے تنے کو اوپر سے عرضی تراشے کر کے دیکھیں تو اس میں سیکلروشیا بنے ہوئے نظر آتے ہیں جو چھوٹے چھوٹے موتی کی صورت میں نظر آتے ہیں جن کا رنگ شروع میں سفید بعد میں سرخ اور پھر بھورے رنگ کے ہو جاتے ہیں۔بیماری کی وجہ سے پودے کی خوراک کی نالیاں تباہ ہو جاتی ہیں اور پودا مرجھانے کے ساتھ ہی مر جاتا ہے۔ |
|
اگیتا جھلساؤ کھیرا، خربوزہ،تربوز، ٹماٹر،شملہ مرچ اور سبز مرچ وغیرہ۔ |
توں کی نچلی سطح پر گہرے ہم مرکز دھبے نمودار ہو جاتے ہیں جو بعد میں پتوں کی بالائی سطح پر بھی ظاہر ہو جاتے ہیں۔بیماری کی شدت میں پورے پودے پر یہ دھبے ظاہر ہو جاتے ہیں اور پودے جھلسے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔20سے30سینٹی گریڈ درجہ حرارت اور ہوا میں موجود60فیصد نمی میں بیماری کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ |
|
تنے اور جڑ کا گلاؤ سبز مرچ، سرخ مرچ،شملہ مرچ، ادرک،خربوزہ، تربوز،کھیرا اور کدو کے خاندان سے تعلق رکھنے والی سبزیاں۔ |
جڑ کے قریب سے تنے پر سیاہی نما دھبے بن جاتے ہیں جو بعد میں سیاہ ہالے کی صورت حال اختیار کر لیتے ہیں۔پودے کو نمکیات اور پانی کی ترسیل مکمل طور پر رُک جاتی ہے پودا مرجھا جاتا ہے اور ایک سے دو ونوں میں مر جاتا ہے۔ |
|
پتوں کے داغ Leaf Spot تقر یباً سب سبزیات |
پتوں پر چھوٹے چھوٹے نمدار دھبے ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو بعد میں پیلے رنگ اور بعد ازاں بھورے رنگ کے ہو جاتے ہیں۔شدید گرمی کی صورت میں یہ دھبے آپس میں مل جاتے ہیں اور پودا اپنی غذائی ضروریات اچھے طریقے سے پوری نہیں کر پاتا۔ |
|
سبزیات کا جراثیمی جھلساؤ ادرک،ٹماٹر،خربوزہ،تربوز،مرچ،مرچ، شملہ مرچ اور چپن کدو وغیرہ۔ |
اس بیماری کے جراثیم بیج میں یا زمین میں موجود ہوتے ہیں اوراس کے پھیلاؤ کا سبب بیکٹریا ہے۔ بیماری کی علامات میں پتوں کا زرد پڑ جانا،قد کا چھوٹا رہ جانا اور پودے کا مرجھا جانا شامل ہیں۔اگر متاثرہ پودے کی جڑوں کو کاٹ کر پانی میں رکھا جائے تو پودے میں سے بیکٹریا کا مواد نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔پودے کی جڑیں گلابی یاگہرے بھورے رنگ کی نظر آتی ہیں۔ یہ بیماری جڑی بوٹیوں کی تلفی کے دوران پودوں کے زخمی ہونے کی وجہ سے یا زیر زمین موجود نیماٹوڈ کے حملے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ بیماری کی وجہ سے پودے کی خوراک کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور یہ ا ایک یا دو دن میں مر جاتا ہے۔ |
|
اکھیڑا مرچ،شملہ مرچ،سبز مرچ،کھیرا، گھیا کدو، حلوہ کدو،گھیا توری، کریلا اور چپن کدو وغیرہ۔ |
پودے کے پتے زرد رنگ کے ہوجاتے ہیں اور ان کی بڑھوتری مکمل طرح سے رک جاتی ہے۔پودے کے پتے مرجھائے ہوئے نظر آتے ہیں۔متاثرہ پودے کا تنا سطح کے قریب سے صحت مند پودوں سے نسبتاً زیادہ پھولاہوا نظر آتا ہے اور اگر پودے کو اکھاڑ کر دیکھا جائے تو جڑیں گلی ہوئی نظر آتی ہیں۔ زیر زمین درجہ حرارت کا بڑھ جانا اور خشک زمین میں اس بیماری کا حملہ شدید ہو جاتا ہے۔ |
|
سبزیوں کے خطئیے تقریباً سب سبزیات |
اس بیماری کا سبب نیما ٹوڈ ہے پودے کا قد چھوٹا رہ جاتا ہے۔پتے پیلے سے نظر آتے ہیں پودے مرجھائے ہوئے نظر آتے ہیں متاثرہ پودے کو اکھاڑ کر دیکھا جائے تو جڑوں پر چھوٹی چھوٹی گانٹھے نظر آتی ہیں۔ خطئیے پودوں کی جڑوں کو زخمی کر دیتے ہیں اور دیگر بیماری پھیلانے والے جراثیم کی منتقلی کا سبب بنتے ہیں۔ جیسے مرجھاؤ اور گلاؤ وغیرہ۔ | انسداد کے لئے سفارش کردہ ز ہراستعمال کریں۔ |
بیج کا گلاؤ/نوخیز پودوں کا مرجھاؤ بیج سے اُگنے والی تمام سبزیات |
بیج کے گلاؤ کا باعث ا یک پھپھوندی ہے۔بیج سے پودا نکل ہی نہیں پاتا یا نکلتے ساتھ ہی مر جاتا ہے۔اگر بیماری بڑے پودے پر آئے تو وہ مرجھا کر خشک ہو جاتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ |
|
کوڑھ کھیرا،کدو، خربوزہ،تر، حلوہ کدو،ٹینڈا،کریلا، توری،تربوز |
پتوں، تنے اور پھل پر لمبے دھبے نمودار ہوتے ہیں جو پہلے چھوٹے اور بعد میں بڑے ہوجاتے ہیں۔ دھبوں کی شکل نوکدار یا نسبتاً گول ہوتی ہے جو تیزی سے بڑھ کر بھورا رنگ اختیار کر لیتی ہے۔ بیماری کی ابتدااگر بیمار بیج سے ہو تو پہلے پتے مرجھا جاتے ہیں اور دھبے تنے پر زمین کی سطح کے قریب بنتے ہیں اور پودا مر جاتا ہے۔ بیماری پودوں کے خس و خاشاک اور بیج میں زندہ رہتی ہے۔کھیت میں فصل کے ساتھ نشوونما پاتی ہے۔ پانی، بارش اور کیڑوں کے ذریعے صحت مند پودوں میں منتقل ہو جاتی ہے۔ |
|
مائروتھیشم کا جھلساؤ کریلا،کدو اور ٹینڈا وغیرہ |
یہ بیماری پتوں کے کنارے پر ہلکے زرد رنگ کے دھبوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔دھبوں کا رنگ بعد میں گہرا پیلا اور پھر بھورا اور آخر کار کالا ہو جاتا ہے۔ جیسے جیسے بیماری بڑھتی ہے دھبے بڑے ہو کر سارے پتے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ یہ بیمار پودوں کے خس و خاشاک اور بیج کے ذریعے جولائی سے ستمبر کے مہینوں میں پھیلتی ہے۔موزوں ترین درجہ حرارت 28 سے 38 سینٹی گریڈ ہے۔ |
|
پھل کی سڑن غیر جراثیمی بیماری | یہ کوئی بیماری نہیں بلکہ گرم موسم میں جب پانی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے اور پھلوں کو کیلشیم کی مناسب مقدار نہیں ملتی تو بیماری کی علامات ظاہر ہو جاتی ہیں۔ٹماٹر کا پھل پچھلی طرف سے بھورا ہو جاتا ہے جو کہ بعد میں سیاہ رنگ کے ہو جاتے ہیں۔بعض اوقات پھل کے اندربھی کالے دھبے بن جاتے ہیں۔ | علامات ظاہر ہوتے ہی سفارش کردہ پھپھوندی کُش زہراستعمال کریں۔ |
ککر بٹس کی وائرسی امراض | 30قسم سے زائد وائرسی امراض ککر بٹس پر حملہ کرتی ہیں جن میں ککمبر موزیک وائرس،سکوائش موزیک وائرس،واٹر میلن موزیک وائرس،زوچنی ییلو موزیک وائرس، پپایا رنگ سپاٹ وائرس وغیرہ شامل ہیں۔ ان وائرسی بیماریوں کی علامات آپس میں ملتی جلتی ہیں۔ پتے کی شکل کا بگڑ جاتا۔ہلکے اور گہرے رنگ کے دھبے بن جانا۔سبز مادے کا پیلے رنگ سے گھرا ہونا یا سبز مادے کا ختم ہو جانا۔ متاثرہ پودے کا قد چھوٹا رہ جانا۔پتوں کا کناروں سے اوپر کی طرف یا نیچے کی طرف ہو جانا۔متاثرہ پودوں پر پھل کا کم لگنا۔ |
|
کھیرے کا پچی کاری وائرس | اس کی علامات میں پچی کاری پتوں کا زردی مائل ہو جانا، پتے کی رگوں کا ابھر آنا،پتے کی شکل کا بگڑ جانا،پتے کی جسامت کا چھوٹا ہو جانا اور پتے پر مردہ دھبوں کا بن جانا شامل ہیں۔اس وائرس کے ذریعے مرچوں کی مجموعی پیداوار میں 60فیصد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ | ایضا |
بھنڈی توری کا زرد رنگ کا وائرس | یہ وائرس مستقل طور پر سفید مکھی کے ذریعے پھیلتا ہے۔اس بیماری کے باعث سب سے پہلے پتوں کی رگیں زرد ہونا شروع ہوتی ہیں جو آہستہ آہستہ گہری زرد ہو جاتی ہیں۔آہستہ آہستہ بڑی اور چھوٹی رگیں موٹی ہو جاتی ہیں اور تمام پتوں پر زردی مائل جال سا بن جاتا ہے۔بعض دفعہ پتے میں سبز مادہ بالکل ختم ہو جاتا ہے اور بیمار پودا دور ہی سے نظر آ جاتا ہے۔پھل بھی زردی مائل ہو جاتا ہے اور اس کی جسامت بھی چھوٹی رہ جاتی ہے۔ | ایضا |
کیڑے
سبزیوں کے ضرررساں کیڑے اور ان کا انسداد
سست تیلہ ٹماٹر،بینگن،بھنڈی توری، خربوزہ، گوبھی، بند گوبھی، شلجم، تربوز و دیگر سبزیات۔ |
سست تیلہ کے بالغ اور بچے پتوں کی نچلی سطح سے رس چوس کر نقصان پہنچاتے ہیں۔اپنے جسم سے ایک میٹھا مادہ خارج کرتے ہیں جس کی وجہ سے پتوں پر سیاہ قسم کی اُلی لگ جاتی ہے اور پتوں کا ضیائی تالیف کا عمل شدید متاثرہوتا ہے۔اس کا حملہ وسط فروری سے مارچ میں شدید ہوتا ہے۔چھوٹے پودوں کی بڑھوتری رُک جاتی ہے اور پودے خاطر خواہ پیداوار بھی نہیں دیتے۔ہوا میں زیادہ نمی اور کم درجہ حرارت والا موسم سست تیلے کی افزائش میں کافی معاون ثابت ہوتا ہے۔سبزیوں کی فصلوں میں بالغ پروانے بھی ملتے ہیں جو ایک کھیت سے دوسرے کھیت میں منتقل ہوتے رہتے ہیں۔یہ کیڑا عام طور پر وائرسی بیماریاں پھیلاتا ہے۔شدید حملے کی صورت میں فصل کالی نظر آتی ہے۔ |
|
چست تیلہ بھنڈی توری،بینگن، مرچ اور بیلدار سبزیات |
بچے اور بالغ دونوں ہی پتوں کا نچلی سطح سے رس چوستے ہیں۔پتوں کے کنارے گہرے پیلے اور بعد میں سرخی مائل ہوجاتے ہیں۔جو بعد میں خشک ہو کر نیچے کی جانب یا اوپر کی جانب کپ نما شکل اختیار کر جاتے ہیں اور شدید حملہ کی صورت میں پتے گرنا شروع ہو جاتے ہیں اور فصل جھلسی ہوئی نظر آتی ہے۔ |
|
سفید مکھی تقریباً سب سبزیات |
سفید مکھی کا مکمل پروانہ بہت چھوٹا، جسم کارنگ زردی مائل اورپروانہ سفید رنگ کے پاؤڈر سے ڈھکا ہوتا ہے۔اس لیے اس کیڑے کا رنگ سفید نظر آتا ہے۔بچے چپٹے بیضوی شکل کے ہلکے زردیا سبزی مائل زرد رنگ کے ہوتے ہیں جو پتوں کی نچلی سطح پر چپکے ہوتے ہیں۔ بالغ اور بچے دونوں رس چوس کر پودوں کو کمزور کر دیتے ہیں۔رس چوسنے کے علاوہ سفید مکھی میٹھا لیس دار مادہ بھی خارج کرتی ہے۔ سیاہ رنگ کی اُلی لگ جانے سے پودے کا حملہ شدہ حصہ سیاہ ہو جاتا ہے۔ ضیائی تالیف کم ہونے کی وجہ سے خوراک کم بنتی ہے اور پودے کمزور ہو جاتے ہیں۔ شدید حملہ پیداوار میں کمی کا باعث بنتا ہے۔سفید مکھی وائرسی بیماری کوایک پودے سے دوسرے پودے تک پھیلانے کا ذریعہ بنتی ہے۔سفید مکھی خشک آب و ہوا اور زیادہ درجہ حرارت جیسے حالات میں زیادہ حملہ کرتی ہے جون سے اگست کے مہینوں میں سبزیوں پر کافی تعداد میں موجود ہوتی ہے۔ |
|
سرخ جوئیں تمام سبزیات |
جوئیں ایک علیحدہ گروپ ہے۔ کیڑوں کی چھ ٹانگیں ہوتی ہیں جبکہ مائیٹس کی آٹھ ٹانگیں ہوتی ہیں۔یہ قد میں بہت چھوٹی ہوتی ہیں لہذا محدب عدسہ کی مدد سے ہی پتوں پر نظر آسکتی ہیں۔سرخ مائیٹ کی مادہ کا رنگ سرخی یا سبزی مائل زرد ہوتا ہے۔پیٹھ پر دو سرخ رنگ کے دھبے ہوتے ہیں۔بچے بھی شکل میں مائیٹ ہی کی طرح کے ہوتے ہیں۔پتوں پر حملہ کے شروع میں ہلکے سبزسے لے کر سفیدی مائل پیلے رنگ کے دھبے بننا شروع ہو جاتے ہیں اور گر جاتے ہیں۔شدید حملے کی صورت میں سارا پتا سفید رنگ کے ریشمی جالوں سے ڈھک جاتا ہے۔رس چوسنے کی وجہ سے پتے کناروں سے مڑ جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا سبز رنگ پیلے اور بعد میں بھورا ہو جاتا ہے۔پودا دور سے دیکھنے پر مرجھاؤ کی علامات سے ملتا جلتا نظر آتا ہے۔پودے کے تمام پتے مائیٹس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں اور پیداوار شدید متاثر ہوتی ہے۔ |
شدید حملے کی صورت میں سفارش کردہ کیڑے مار زہر سپرے کریں۔ |
بینگن کے پھل اور شگوفے کا گڑوواں (Brinjal Stem & Fruit Borer) |
اس کی سنڈیاں شگوفوں اور پھل کوسب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔تنے اور پھل میں داخل ہو کر اندر سے کھاتی رہتی ہیں۔یہ کیڑا نرسری اور منتقل شدہ فصل پر بھی حملہ آور ہوتا ہے۔اگر اس کی روک تھام نہ کی جائے تو پیداوارشدید متاثر ہوتی ہے۔حملہ شدہ پھولوں میں سوراخ بن جاتے ہیں جس میں سنڈیوں کے فضلے بھرے ہوتے ہیں۔اس کے پروانے کا رنگ بھورا ہوتا ہے اور اگلے پروں کے قریب ڈبلیو(W)کا نشان ہوتا ہے۔سنڈی کا رنگ زردی مائل سفیداور سر نارنجی بھورے رنگ کا ہوتا ہے۔ |
|
بھنڈی توری کے پھل اورشگوفے کا گڑوواں (Okra fruit & shoot borer) |
سنڈیاں شگوفوں،ڈوڈیوں اور پھل کے اندر سوراخ کر کے نقصان پہنچاتی ہیں۔حملہ شدہ شگوفے مرجھا کر سوکھ جاتے ہیں۔حملہ شدہ پھل کی شکل خراب ہو جاتی ہے اور قابل استعمال نہیں رہتا۔ |
|
امریکن سنڈی تمام سبزیات |
اس کی سنڈیاں شگوفوں،کلیوں،پھولوں اور پھل پر حملہ کرتی ہیں۔یہ پھل میں سوراخ کر کے اندر داخل ہو جاتی ہیں۔کھاتے وقت سنڈی اپنا سر پھل کے اندر اور باقی جسم باہر رکھتی ہے۔امریکن سنڈیاں مختلف رنگوں کی ہو سکتی ہیں۔سنڈی کا رنگ ہلکا بھورا ہوتا ہے۔سرموٹا اور بھورے رنگ کا ہوتا ہے۔جبکہ لشکری سنڈی کا سر جسم کے مقابلے میں باریک اور کالے رنگ کا ہوتا ہے۔پورا قد اختیار کرنے پر یہ زردی مائل یا سبز رنگ کی بھی ہو سکتی ہے۔گرم مرطوب اور بارشی موسم میں اس کا حملہ زیادہ ہوتا ہے۔مادہ پتوں اور پھل کے اوپر کے حصے پر انڈے دیتی ہے اور اس کے زیادہ تر انڈے پودے کی نرم شاخوں پر ہوتے ہیں۔ |
|
لیف مائنر تمام سبزیات |
اس کیڑے کا حملہ ٹنل میں کاشت کی صورت میں زیادہ شدت کے ساتھ ہوتا ہے۔یہ کیڑا پتوں کا سبزمادہ کھرچ کر کھا جاتا ہے اور پتوں پر بے ڈھنگی سفید لکیریں نظر آتی ہیں۔ |
|
کدو کی لال بھونڈی خربوزہ،تربوز،کدو اور دیگر بیلوں والی سبزیات |
یہ لال رنگ کی لمبوتری سی بھونڈی ہے۔جس کے پیٹ کا نچلا حصہ کالے رنگ کا ہوتا ہے۔یہ بھونڈی پتوں کو کھا جاتی ہے جس سے پودوں کی بڑھوتری رُک جاتی ہے۔اگر حملہ شدید ہو تو پودے مر جاتے ہیں۔اُگتے ہوئے پودوں پر اس کیڑے کا حملہ فصل کو شدید نقصان پہنچاتا ہے اس کا کویا زمین کے اندردراڑوں میں موجود ہوتا ہے۔جس سے بھونڈی نکل کر نقصان پہنچاتی ہے۔ |
|
دیمک تقریباً تمام سبزیات |
یہ کیڑے پودوں کی جڑوں اور زیرِزمین تنوں پر حملہ کرتے ہیں اور ان کو کھاتے ہیں۔حملہ شدہ پودے پہلے مرجھا کر خشک ہوجاتے ہیں۔ |
|
فروٹ کی مکھی (Fruit Fly) |
عموماً زردی مائل رنگ کی ہوتی ہے۔مادہ مکھیاں پھل میں باریک سوراخ کر کے اس میں انڈے دیتی ہیں۔سوراخ بعد میں بند ہو جاتا ہے۔ان انڈوں سے سنڈیاں نکل کر اندر ہی اندر پھل کا گودا کھا جاتی ہیں۔جس کی وجہ سے پھل خراب ہوجاتا ہے اور قابلِ استعمال نہیں رہتا۔ |
|
چور کیڑا ٹماٹر،آلو،مرچ،گوبھی کی نرسری، بھنڈی توری، بیلدار سبزیات اور دیگر سبزیات |
یہ کیڑا اکتوبر تا مئی سرگرم رہتا ہے۔رات کے وقت چھوٹے پودوں کو زمین کے قریب سے کاٹ کاٹ کر نقصان پہنچاتا ہے۔کھاتا کم اور نقصان زیادہ کرتا ہے۔دن کے وقت سنڈیاں زمین میں چھپی رہتی ہیں۔ |
|
گدھیڑی (Mealy Bug) |
اس کی مادہ کے پر نہیں ہوتے اور نر کے پر ہوتے ہیں۔مادہ کا رنگ پہلے ہلکا سرخی مائل اور جوان ہونے پر اس کے اوپر سفید پاؤڈر کی موٹی تہہ جم جاتی ہے اور بہت سست ہو جاتی ہے۔نر صرف بار آوری کا کام کرتے ہیں اور سارا نقصان صرف بچے اور مادہ گدھیڑی ہی کرتی ہے۔گدھیڑی ایک تھیلی ساتھ لئے پھرتی ہے اس میں 200تک انڈے ہوتے ہیں۔جس میں دس دن کے اندر بچے نکل آتے ہیں اور بعض اوقات گدھیڑی براہِ راست بچے بھی دیتی ہے۔اس کے بچے بہت پھرتیلے ہوتے ہیں اور تیزی سے سبزیوں کے پودوں پر چڑھ سکتے ہیں۔یہ کیڑا ٹکڑیوں کی صورت میں حملہ کرتا ہے۔سبزیوں کی نرم شاخوں کا رس چوستا ہے۔ |
|
بینگن کا جھالر دار بگ (Brinjal wing lace bug) |
اس کیڑے کے بالغ اور بچے پتوں کا رس چوستے ہیں اور پتوں میں ایک زہریلا مادہ داخل کرتے ہیں جس سے پتے خشک ہو کر گرنا شروع کر دیتے ہیں۔حملہ شدہ پودے پہلے پیلے بعد میں چُڑ مُڑ ہو جاتے ہیں۔شدید حملہ شدہ پودے مکمل طور پر پتوں سے محروم ہو جاتے ہیں اور آخر کار مر جاتے ہیں۔ |
|
ہڈا بھونڈی بینگن، آلو،ٹماٹر اور دیگر بیلدار سبزیات |
یہ کیڑے بالغ اور سنڈیاں (گرب)دونوں پتوں کی اوپری سطح کو کھرچ کر کلوروفل کھا جاتی ہیں۔حملہ شدہ پتوں کی رگیں باقی رہ جاتی ہیں اور پتے خشک ہو کر گر جاتے ہیں۔حملہ شدہ پتے جالی نما ہو جاتے ہیں۔ |
|
مولی بگ (Painted Bug) بھنڈی اور ٹماٹر وغیرہ۔ |
بالغ اور بچے دونوں پودوں کا رس چوستے ہیں۔رس چوستے ہوئے اپنے منہ سے ایک زہریلا مادہ پودوں پر چھوڑتے ہیں۔جس سے پودے خشک ہونے لگتے ہیں اور پیداوارمتاثر ہوتی ہے۔ |
|
پھل کی مکھی (Fruit Fly) |
عموماً زردی مائل سیاہ رنگ کی ہوتی ہے۔مادہ مکھیاں پھل میں باریک سوراخ کر کے اس میں انڈے دیتی ہیں۔سوراخ بعد میں بند ہو جاتا ہے۔ان انڈوں سے سنڈیاں نکل کر اندر ہی اندر پھل کا گودا کھا جاتی ہیں جس کی وجہ سے پھل خراب ہو جاتا ہے اور قابل استعمال نہیں رہتا۔ |
|
جڑی بوٹیوں کی روک تھام
چھدرائی و گوڈی
بہتر پیداوار کے لیے مناسب وقت پر چھدرائی اور گوڈی کا عمل نہایت ضروری ہے۔جب پودے 3سے4انچ کے ہو جائیں تو ہر سوراخ سے ایک صحت مندپودا چھوڑ کر فالتو پودے نکال دیں۔فصل کو جڑی بوٹیوں سے پاک رکھنے کے لیے 3سے4مرتبہ مناسب وقت پر گوڈی کریں۔گوڈی کرتے وقت پودوں کے گردو مٹی چڑھاتے جائیں۔
جڑی بوٹیوں کا انسداد
فروری مارچ میں کاشتہ بھنڈی توری میں باتھو،جنگلی پالک،جنگلی ہالوں اور چولائی وغیرہ نقصان پہنچاتی ہیں۔مارچ سے جون کے درمیان کاشتہ فصل اٹ سٹ،تاندلہ،ڈیلا،چبھڑ،مدھانہ،لمب گھاس،قلفہ اور چولائی سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ اچھی پیداوار کے لئے جڑی بوٹیوں کو بروقت کنٹرول کریں۔ان کی تلفی کے لیے درج ذیل طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔
اُگاؤ سے پہلے انسداد
فروری مارچ میں کاشتہ فصل میں پینڈی میتھالین بحساب1200جبکہ مئی جون میں کاشتہفصل پر800ملی لیٹر فی ایکڑ بوائی کے24گھنٹے بعدسپرے کی جاسکتی ہے۔ بھنڈی توری پر پینڈی میتھالین،ڈوآل گولڈ کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ثابت ہوئی ہے۔لیکن اگر کھیت میں دیگر جڑی بوٹیوں کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ ڈیلا اگنے کا امکان ہو تو باامرِ مجبوری ڈوآل گولڈ بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔
اُگاؤ کے بعد انسداد
مئی جون میں کاشتہ فصل میں اُگی ہوئی جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے کیلئے کاشت کے تین ہفتے بعدشیلڈ لگا کر کھیلیوں کے اندرگرامکسون بحساب600 اور ڈوآل گولڈ بحساب800 ملی لیٹر فی ایکڑ ملا کر سپرے کی جا سکتی ہیں۔
آبپاشی
آبپاشی
پہلی آبپاشی بوائی کے فوراً بعداس طرح کریں کہ پانی پٹڑیوں کے اُوپر نہ چڑھ پائے۔بیج تک صرف نمی پہنچے تاکہ زمین سخت نہ ہو اور بیج کا اُگاؤ متاثر نہ ہو۔ورنہ پیداوار پر بُرا اثر پڑے گا۔بعد میں ہفتہ وار آبپاشی کرتے رہیں۔جب زیادہ گرمی ہوجائے تو اس وقت پانی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔لہذا ہر چوتھے دن آبپاشی کر دیں۔ موسمی حالات کے پیش نظر آبپاشی کے وقفہ میں ردوبدل کیا جا سکتا ہے۔
کھادیں
کیمیائی کھادوں کا استعمال
کھاد کی مقدار کا تعین زمین کے لیبارٹری تجزیہ کی بنا پرکریں تاہم اوسط زرخیز زمین کے لیے مندرجہ ذیل سفارشات پر عمل کریں۔
مقدار غذائی اجزاء (کلو گرام فی ایکڑ) | |||||
نائٹروجن N |
فا سفورس P |
پوٹاش K |
کھاد کی مقدار(بوری فی ایکڑ) | ||
بوائی کے وقت | |||||
26 | 35 | 25 | ڈیڑھ بوری ڈی اے پی،ایک بوری امونیم نائٹریٹ یاامونیم سلفیٹ اورایک بوری ایس او پی |
مندرجہ بالا کھاد کے علاوہ فصل بڑی ہونے پر ہر پندرہ دن بعد 15تا20کلو گرام یوریا فی ایکڑڈالیں۔
کٹائی
برداشت
بھنڈی توری کی فصل بوائی کے 50 دن بعد پھل دینا شروع کر دیتی ہے۔جب پھل کا سائز 3انچ ہو جائے تو چنائی کر لیں۔پھل کے سائز کی مناسبت سے چنائی جاری رکھیں کیونکہ بڑا اور سخت پھل منڈی میں اچھی قیمت نہیں دیتاتاہم بعض علاقوں میں بلخصوص خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان میں سخت بیج کی حامل بھنڈی توری کو پسند کیا جاتا ہے۔۔بھنڈی توری کی چنائی کا عمل مشکل ہوتا ہے اس لئے ہاتھوں پر ہوادار دستانے چڑھا کر چنائی کرنی چاہیے۔