مٹر

nil

فصل کے بارے

مٹر بر صغیر پاک و ہند میں زمانہ قدیم سے کاشت ہو رہے ہیں۔ اور مختلف طریقوں سے بطور غذا استعمال ہو تے رہے ہیں۔ زیادہ تر تازہ حالت میں سبزی کے طور پر کھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈبوں میں محفوظ کر کے یا سکھا کر یا منجمد کر کے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ مٹر لحمیاتی مادہ (پروٹین) سے بھرپور ہیں۔ اور ہماری غذا میں گوشت کی کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔ پروٹین کے علاوہ مٹر میں چونا ، لوہا، فاسفورس ، حیاتین اے،سی، ریبوفیلون ،تھایا مین ور نایا سین بھی کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں ۔ جو کہ صحت کو برقرار رکھنے کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ مٹرکی فصل معتدل سردآب وہوا میں بہتر نشوونما پاتی ہے۔اس کے پودے کورے کے اثر کو بہت حد تک برداشت کر لیتے ہیں۔ لیکن پھول اور چھوٹی پھلیوں کو کورے سے بہت نقصان پہنچتا ہے۔مٹر کے بیج کے اُگنے کے لیے کم از کم (4درجہ سینٹی گریڈ)درجہ حرارت درکار ہے۔ لیکن بیج کا بہترین اگاؤ 24-21درجہ سینٹی گریڈ پر ہوتا ہے۔ اگر زمین کا درجہ حرارت 27سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو تو بیج کا اگاؤ تو ہو جاتا ہے۔ لیکن پودے عموماً اکھیڑے کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

بیج

اقسام:
(1 )میٹور (Meteor):
یہ مٹر کی سب سے اگیتی قسم ہے۔ پودے چھوٹے قد کے ہوتے ہیں پھلیاں گہرے سبز رنگ 9-8سینٹی میٹر لمبی ہوتی ہیں۔ اور ہر پھلی میں پانچ چھ دانے ہو تے ہیں۔ پختہ بیج گول اور سبز ہو تے ہیں۔ پہلی چنائی کاشت کے پچاس دن بعد حاصل ہو جاتی ہے۔
2))سمرینازرد(Samrina Zard):
یہ بھی مٹر کی ایک اگیتی قسم ہے۔ پودے درمیانہ قد کے ہوتے ہیں۔ پھلیاں ہلکے سبز رنگ کی 6-5سینٹی میٹر لمبی ہوتی ہیں۔ ہر پھلی میں اوسطاً پانچ چھ دانے ہو تے ہیں۔ پھلی کا چھکا پتلا ہو تا ہے۔ منڈی میں یہ قسم اچھا بھاؤ پاتی ہے۔ پختہ بیج گول اور قدرے چھوٹاہوتا ہے۔ پہلی چنائی کاشت کے پچاس دن بعد حاصل ہو تی ہے۔ اس قسم کی پیداوار دوسری اگیتی اقسام سے زیادہ حاصل ہوتی ہے۔
3))کلائمیکس (Climax):
یہ مٹر کی زیادہ پیداوار دینے والی درمیانہ قسم ہے۔ پودے درمیانہ قد کے ہوتے ہیں ۔پھلیاں تقریباً 8سینٹی میٹر لمبی ہوتی ہیں۔ ہر پھلی میں اوسطاً 
سات آٹھ دانے ہو تے ہیں ۔ پختہ بیج پچکے ہوئے اور سبز رنگ کے ہوتے ہیں ۔ اکتوبر کے آخر میں کاشت شدہ فصل فروری مارچ میں پھل دیتی ہے۔ پیداوار دیگر درمیانہ موسمی اقسام سے زیادہ ہے۔ اس لیے کاشتکاروں میں مقبول ہے۔ 

کاشت

زمین کی تیاری اور طریقہ :
مٹر کی کاشت کے لیے زرخیز میرا زمین جس میں پانی کا نکاس خاطر خواہ ہو بہتر رہتی ہے۔ مٹر کی کاشت کے لیے عموماً کھیت کو گوبر کی کھاد نہیں ڈالی جاتی بلکہ کاشت ایسی فصل کے بعد کی جاتی ہے۔ جس کو 15-10ٹن گوبر کی کھاد ڈالی گئی ہو۔ اگر کھیت زیادہ زرخیز نہ ہو اور اس میں مٹر کاشت کرنے ہو ں تو کاشت سے ایک ماہ پہلے کھیت میں 15-10ٹن گوبر کی کھاد ڈالیں اور آبپاشی کردیں۔ وتر آنے پر دوبارہ ہل اور سہاگہ دیں۔ مٹر کی اگیتی اقسام عموماً چھوٹے قد کی ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کو 75سینٹی میٹر کے فاصلہ پر بنائی ہو ئی پٹڑیوں کے دونوں طرف بویا جاتا ہے۔ پٹڑیوں بنانے سے پہلے کھیت میں چاربوری سپر فاسفیٹ اور ایک بوری امونیم سلفیٹ اور ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ کھاد بکھیر دیں۔ درمیانہ قد والی موسمی اور پچھیتی اقسام کو ایک میٹر کے فاصلہ پر بنائی ہو ئی پٹڑیوں کے دونوں کناروں پر بویا جائے۔ اگیتی اقسام کا تقریباً40-35کلو گرام فی ایکڑ بیج استعمال ہو تا ہے۔ اور درمیانہ موسمی اور پچھیتی اقسام کا 30-25کلو گرام بیج فی ایکڑ کافی رہتا ہے۔ لمبے قد والی پچھیتی اقسام کو سوایا ڈیڑھ میٹر کے فاصلے پر بنائی ہوئی پٹڑی کے کنارے پر بویاجائے اور اگنے پر پودوں کو کپاس کے پودوں یا درختوں کی شاخوں کا سہارا مہیا کیا جائے۔ ان اقسام کا تقریباً 25-20کلو گرام بیج فی ایکڑ استعمال کیاجاتا ہے۔ مٹرکے بیج کو پٹڑیوں کے دونوں کناروں پر تین سینٹی میٹر گہرا بونا چاہیے ۔ اور آبپاشی احتیاط سے کرنی چاہیے تاکہ پانی پٹڑیوں پر نہ چڑھے ورنہ کرنڈ بن جانے کی صورت میں زمین سخت ہو جاتی ہے۔ اور بیج نہیں اگتا ۔ اگیتے مٹر کے پودوں کے درمیان5-4سینٹی میٹر جبکہ درمیانے یا پچھیتے مٹر کے پودوں کے درمیان 8سینٹی میٹر کا فاصلہ رکھنا مناسب ہو تا ہے۔ گھنا اگاؤ ہو نے کی صورت میں مناسب چھدرائی کر دیں۔ جن علاقوں میں فروری مارچ میں بارش زیادہ ہو وہاں مٹر کی درمیانہ اور پچھتی اقسام کو بھی سہارا مہیاکی جائے تاکہ پھلیاں خراب نہ ہوں ۔ کم بارش والے علاقوں میں مٹرہموار زمین پر بذریعہ کیر ا یاا پور وتر زمین پر کاشت کیاجاسکتا ہے۔ بیج پیدا کرنے کے لیے خشک آب و ہوا والے علاقوں میں مٹر کی ہموار زمین پر کاشت ہو تی ہے۔

بیماریاں

بیماری : پتوں کے داغ ۔
علامات : پتوں پر چھوٹے چھوٹے نمدار دھبے ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو بعد میں پیلے رنگ کے ہوجاتے ہیں اور بعد ازاں یہ دھبے بھورے رنگ کے ہوجاتے ہیں شدید گرمی کی صورت میں یہ دھبے آپس میں مل جاتے ہیں اور پودا اپنی غذائی ضروریات اچھی طرح سے پوری نہیں کر پاتا ۔ 
تدارک :
بیماری کے ظاہر ہوتے ہی مندرجہ ذیل پھپھوند کش ادویات میں سے ادل بدل کے اُصول کو مد نظر رکھتے ہوئے 5دن کے وقفے سے اچھی طرح سپرے کریں تاکہ پودا مکمل طور پر پھپھوند کش زہر سے بھیگ جائے۔کاپر آکسی کلو رائیڈ 300گرام فی ایکڑ ،ٹیبوکو نازول پلس ٹرائی فلو کسی سٹروبن 70گرام فی ایکڑ،ایزوکسی سٹروبن پلس پروپی کو نازول 250ملی لیٹر فی ایکڑ،ڈائی فینو کونازول پلس پروپی کونازول 150گرام فی ایکڑ،سلفر 800ملی لیٹر ،تھائیوفینیٹ میتھائل پلس کلو روتھیلونل 300گرام ،
بیماری : سبزیوں کے۔خطیئے ۔
علامات :
اس بیماری کا سبب نیماٹوڈ ہے پودے کا قد چھوٹا رہ جاتا ہے ۔پتے پیلے سے نظر آتے ہیں پودے مرجھائے ہوئے نظر آتے ہیں متاثرہ پودے کو اکھاڑ کر دیکھا جائے تو جڑوں پر چھوٹی چھوٹی گا نٹھیں نظر آتی ہیں ۔خطیئے پودوں کی جڑوں کو زخمی کر دیتے ہیں اور دیگر بیماری پھیلانے والے جراثیم کی منتقلی کا سبب بھی بنتے ہیں جیسے کہ سرانڈ مرجھاؤ اور گلاؤ۔ 
تدارک :
خطیئے کی روک تھام کے لیے کاربوفیوران بحساب 8کلو گرام فی ایکڑ یا کاڈوسافوس بحساب 12کلو گرام فی ایکڑ استعمال کریں۔
بیماری : بیج کا گلاؤ/نوخیز پودوں کا مرجھاؤ ۔
علامات :
یہ پھپھوند بیج کے گلاؤ کا باعث ہے۔بیج سے پودانکل ہی نہیں پاتا یا نکلتے ساتھ ہی مر جاتا ہے اگر بیماری بڑے پودے پر آئے تو وہ مرجھا کر خشک ہو جاتے ہیں اور مر جاتے ہیں 
تدارک : متاثرہ کھیت میں بوائی نہ کریں ۔بیج کو ہمیشہ پھپھوند کش زہرلگا کر کاشت کریں۔بیج کو مندجہ ذیل پھپھوند کش زہروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر کے زہر پاشی کریں کاربینڈازم 1.5کلو گرام فی ایکڑ ایزوکسی سٹرو بن پلس ڈائی فینا کو نازول 700ملی لیٹر،فوسیٹائل ایلومینیم 1.5کلو گرام فی ایکڑ ،تھا ئیوفنیٹ میتھائل پلس کلو ر وتھیلونل 1.5کلو گرام ۔

کیڑے

نام کیڑا : چور کیڑا
نقصان کی علامات : یہ کیڑا بہت ساری سبزیات پر حملہ کرتا ہے۔اکتوبر تا مئی سر گرم رہتا ہے۔رات کے وقت چھوٹے پودوں کو کاٹ کاٹ کر نقصان پہنچاتا ہے ۔کھاتا کم اور نقصا ن زیادہ کرتا ہے۔دن کے وقت سنڈیاں زمین میں چھپی رہتی ہیں ۔
کیمیائی /غیر کیمیائی انسداد:
پروانوں کو تلف کرنے کے لیے روشنی کے پھندے لگائیں ۔کھیتوں میں زیادہ سے زیادہ گوڈی کریں ۔حملہ ہونے کی صورت میں فصل کو پانی لگائیں ۔کھیت کو جڑی بوٹیوں سے پاک رکھیں ۔سنڈیوں کو اکٹھاکر کے تلف کرنے کے لیے کھیت میں مخلتف جگہوں پر ناکارہ سبزیات اور پتوں کے ڈھیر لگائیں جن پر سنڈیاں جمع ہونگی پھر ان کو تلف کریں ۔حملہ کی صورت میں کار بیرل 10فیصد ڈی،بحساب 3تا5کلو گرام یا 
پرمیتھر ین 0.5فیصد ڈی،بحساب 3کلو گرام 10تا 15کلو راکھ یا ریت یا مٹی میں ملا کر کھیت میں دھوڑا کریں ۔یا لیمبڈا سائی ہیلو تھرین بحساب 300ملی لیٹر فی ایکڑ شام کے وقت اسپرے کریں۔
 

جڑی بوٹیوں کی روک تھام

آبپاشی کے بعد فصل میں خودروجڑی بوٹیاں اگ آتی ہیں۔ ان کی تلفی کے لیے دو تین بار گوڈی کر نی چاہیے۔ اور گوڈی کر تے وقت پودوں کو مٹی چڑھاتے رہنا چاہیے۔ پودوں کا جھکاؤ پٹڑی کی جانب کر دینا چاہیے ۔

آبپاشی

مٹر کو عام سبزیوں کی نسبت کم پانی کی ضرورت ہو تی ہے۔ اگیتی کاشت شدہ فصل کو شروع میں چار پانچ آبپاشیاں ہر ہفتہ بعد کر نی چاہئیں بعد میں وقفہ چودہ دن تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ ہموار زمین پر کاشت کی ہوئی فصل کو سارے موسم میں تین چار آبپاشیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔

کھادیں

آبپاشی ، نلائی اور کیمیائی کھاد:
ایک بوری امونیم نائیٹریٹ تیسرے پانی پر ڈالیں۔بعد ازاں دوسری یا تیسری چنائی پر اگر فصل کی حالت کمزور ہو تو آدھ بوری یوریا فی ایکڑ ڈالیں ۔ کھاد پتوں پر نہ پڑے کیونکہ اس سے پتے جل جاتے ہیں اور پودے کو نقصان پہنچتا ہے۔ 

کٹائی

برداشت:
مٹر کی فصل درختوں سے دور ایک ہی بلاک میں کاشت کر نی چاہیے ۔مٹرکی برداشت کے لیے ان کے پکنے کے صحیح وقت کا تعین کر نا ضروری ہے۔ جب پھلیاں مناسب سائز، گہرے اور سبز رنگ کی ہو جائیں اور ان میں دانے بھر جائیں اس وقت ان کی توڑائی کر لینی چاہیے ورنہ ان کی غذائیت متاثر ہو تی ہے۔ پھلیاں توڑتے وقت خیال رکھیں کہ بیلیں خراب نہ ہو نے پائیں اگر گھریلو باغیچے سے مٹر توڑنے ہو ں تو ان کو پکانے سے تھوڑی دیر پہلے توڑا جائے تو ان کی غذایئت برقرار رہتی ہے۔

ذخائر

Crop Calendar