انگور
nil
فصل کے بارے
اہمیت :۔
انگور ایک ایسا پھل ہے جو خوش ذائقہ لذیذ ہونے کے ساتھ ساتھ غذائی اہمیت کا حامل ہے۔ حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ تازہ انگور کھانے سے دل کے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں اور کولیسٹرول کی مقدار کو کنٹرول کرتا ہے اس کے علاوہ انگور میں اہم غذائی عناصر مثلاًفاسفورس، کیلشیم اور فولاد کے علاوہ وٹامن B6 اور B12 پائے جاتے ہیں اس کے علاوہ پکے ہوئے انگور سے اعلیٰ معیار کی جیلی اور مشروبات تیار کیے جاتے ہیں۔
بیج
سفارش کردہ اقسام :۔
بارانی ایگریکلچر ریسرچ انسٹیٹوٹ چکوال میں انگور کی 30 سے زیادہ اقسام موجود ہیں۔ انگور کی کاشت کے لیے یہ خطہ نہایت موزوں ہے تاہم مون سون کی بارش نقصان دہ ہیں۔ اس لیے اس خطہ میں صرف ایسی اقسام کاشت کرنی چاہیے جو مون سون آنے سے پہلے پک کر تیار ہو جائیں درج ذیل اقسام کاشت کے لیے سفارش کی جاتی ہیں۔ کنگزوبی، سلطانیناسی، وٹرو بلیک ، تھامس سیڈلیس ، فلیم سیڈلیس، پرلٹ ۔
کاشت
زمین :۔
انگور تقریباً ہر قسم کی زمین میں کاشت کیا جا سکتا ہے تاہم کامیاب کاشت کے لیے درمیانی زرخیز، ہلکی میرااور مناسب مقدار میں نامیاتی مادہ والی زمین موزوں ہے البتہ کلراٹھی، سیم زدہ اور بھاری زمین انگور کی کاشت کے لیے موزوں نہیں۔ زمین کی تیزابی خاصیت یعنی 65-75 (PH) ہونی چاہیے جو انگور کی افزائش کے لیے بہترین ہے۔
افزائش نسل:
انگور کی افزائش نسل بذریعہ قلموں (cutting) کے ذریعے کی جاتی ہے-
پودے لگانے کا وقت:
انگور کے پودے سال میں دو مرتبہ لگائےجاتے ہیں بغیر گاچی کے پودا جنوری تا فروری کے دوران لگایا جاۓ جبکہ تھیلی والا پودا 15 جنوری سے 15 اپریل تک لگایا جا سکتا ہے اور اس کے بعد اگست میں جب موسم کی شدت کم ہو جائے یا مون سون کے بعد تک لگا سکتے ہیں پودا لگانے کے بعد اس کی زیادہ بڑھی ہوئی شاخیں کاٹ کر فورا پانی لگا دیں۔ پودے صحت مند ہونے چاہیے۔
قلمین تیار کرنا:
قلمین ہمیشہ ان شاخوں سے حاصل کرنی چاہیے جوکم از کم ایک سال کی ہواور ہر قسم کی بیماریوں سے پاک ہو- قلموں کے بیرونی چھلکے کا رنگ ہلکا بھورا اور اندرونی چھلکے کا رنگ سبز ہونا چاہیے خشک سالی اور کورے سے متاسر شاخیں ہر گز استعمال نہ کریں ایسی قلمیں جو درمیانی شاخوں سے حاصل کی جاتی ہیں وہ زیادہ جڑیں پیدا کرتی ہیں ۔
قلم کی لمبائی 8 سے 10 انچ اور آدھا انچ ہونی چاہیے اور ہر قلم پر کم از کم تین چشمے موجود ہوں- قلم کاٹتے وقت نیچے والا حصہ عین چشمہ کے قریب کاٹا جائے اور اوپر والا ایک انچ اونچا کاٹنا چاہیے قلم کا ٹنے وقت نچلا حصہ گول کاٹنا چاہیے جبکہ اوپر والے حصے کو ترچھا کاٹنا چاہیے۔
گڑھوں کی کھدائی اور بھرائی :۔
باغ لگانے سے دو ماہ پہلے 1.5×1.5 کے گھڑے کھودے جائیں گڑھوں کو تقریباً تین ہفتے کے لیے کھلا چھوڑ دیں تاکہ زمین میں موجود کیڑے مکوڑے اور جراثیم دھوپ سے مر جائیں گڑھوں سے نکلنے والے اوپر والی ایک فٹ گہرائی والی مٹی علیحدہ کر لیں اور گڑھوں کی بھرائی کے وقت ایک حصہ گوبر کی گلی سڑی کھاد اور ایک حصہ بھل کے ساتھ ملا کر اس طرح بھرائی کریں کہ زمین سے تقریباً4 انچ اوپر رہے ۔ بعد میں دو پانی لگائیں ، چار پانچ گھنٹے کے وقفہ سے پانی لگانے سے گڑھوں کی سطح کھیت کے برابر ہو جائے گی۔ اگر کھاد میسر نہ ہو تو کھیت کی بالائی 6 انچ کی مٹی سے گڑھے بھر لیں انگور کے پودوں پر ابتداء میں دیمک کا حملہ ہو سکتا ہے اس لیے کلور پائیریفاس (Chlorpyrifos) 10ملی لیٹر فی گڑھا 3 لیٹر پانی میں حل کرکے ڈالیں یاد رہے گوبر کی کھاد مکمل طور پر گلی سڑی ہونی چاہیں ورنہ دیمک کا حملہ ہو گا۔
داغ بیل :۔
پودے لگانے سے پہلے زمین کو اچھی طرح ہموار کر لیں تاکہ گرم خشک موسم کے دوران آبپاشی کا عمل متاثر نہ ہو پودے سے پودے کا فاصلہ 6 فٹ اور قطاروں کا فاصلہ 10 فٹ رکھیں اس طرح ایک ایکڑ میں تقریباً 700 پودے لگائے جا سکتے ہیں۔ پودوں کی قطاروں کو شمالاً جنوباً رکھیں کیونکہ انگور کے پودوں کو دھوپ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے جتنی زیادہ دھوپ ملے گی پھل کی پیداوار اتنے ہی اچھی ہو گی۔
انگور کا پودا بیلوں جیسا ہوتا ہے بیلیں اگر زمین پر پڑی رہیں تو کیڑے اور بیماریوں کا حملہ زیادہ ہو گا کیونکہ بیلوں کو مناسب ہوا اور روشنی نہ ملنے کی وجہ سے پھل گل سڑ جاتا ہے۔ پھل کا معیار اور زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے بیلوں کو عموداً سیدھا رکھنا ضروری ہے اس مقصد کے لیے کھیت میں کنکریٹ کے 8 فٹ اونچے ستون لگائے جاتے ہیں اور ستونوں کے فاصلہ 18 فٹ رکھا جاتا ہے۔ ستون بناتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ ستون زمین میں 2 فٹ دبایا جائے ۔ قطار میں لگے ستونوں کے ساتھ زمین کے متوازی دو تاریں لگائی جاتی ہیں پہلی تار زمین سے 36 فٹ اور دوسری5.6 فٹ پر لگائی جاتی ہے۔
شاخ تراشی۔
انگور کے پودا کو دوسرےپودوںکی نسبت زیادہ شاخ تراشی کےضرورت ہوتی ہے۔ اس سے پتوں اور پھل کو مناسب روشنی ملتی ہے اس سے پھل کا معیار بہتر ہوتا ہے انگور کا پھل ایک سال پرانے چشموں سے نکلنے والی شاخوں پر لگتا ہے اس لیے ایک سال سے زیادہ پرانی شاخوں کو کاٹ دینا چاہیے۔ کانٹ چھانٹ ہمیشہ جنوری میں کرنی چاہیے ۔
بیماریاں
-
ڈاؤنی ملڈیو:
اس کو روئیں دار پھپھوندی بھی کہتے ہیں پتوں پر خاکی رنگ کے دھبے اور سفید سفوف کے بغیر سوکھے ہوئے پتے اس کی علامت ہیں ۔گرمی اور نمی میں یہ بیماری بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور انگور کی بیلوں کی شدید نقصان پہچاتی ہیں
تدارک:
- تھائیو فینیٹ بحساب 2.5 گرام فی لیڑ سپرے کریں ۔
- گرے ہوئے تمام پتوں کو اکٹھا کرکے جلا دیں۔
-
سفوفی پھپھوندی:
اس بیماری کے حملے کی صورت میں پتوں پر سفید رنگ کا سفوف دیکھا جا سکتا ہے شدید حملے کی صورت میں پتے پیلے ہو کر گرنا شروع ہو جاتے ہیں مگر بیماری پرانے پتوں سے شروع ہو کرنئے پتوں کی طرف پھیلتی ہے اور شدید لہر کی صورت میں پھل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے
تدارک:
- فینو کونا زول (Fenoconazole) 50ملی لیٹر فی 100 لیٹر کے حساب سے استعمال کریں۔
-
اینتھراکنوز:
اس بیماری کا سبب ایک پھپھوندی ہے اور اس بیماری میں پتوں پر بھورے رنگ کے گول دھبے ظاہر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پتے خشک اور خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور شدید حملے کی صورت میں پتے اور پھل گر جاتے ہیں ۔
تدارک:
- ڈائی فینو کو نازول (Difenoconazole) 30 ملی لیٹر فی 100 لیٹر پانی میں استعمال کریں۔
-
بوٹراٹیٹس بنچ روٹ:
یہ انگور کی ا ہم بیماری ہے جو کہ پتوں پھولوں اور پھل پر حملہ آور ہوتی ہے اس بیماری کی شدت میں پھولوں کے گچھے کمزور ہو کر گرنا شروع ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے پیداوار کا ایک بڑا حصہ متاثر ہوتا ہے اگر اس کا بر وقت تدارک نہ کیا جائے تو یہ پھل پر بھی منتقل ہو جاتی ہے اور نہ صرف انگور کے ذایقے کو خراب کرتی ہے بلکہ پھل کی کوالٹی کو بھی متاثر کرتی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں اچھا ریٹ نہیں ملتا۔
تدارک:
- کاپر آ کسی کلورایئڈ 2 گرام فی لیٹر پانی میں استعمال کریں۔
کیڑے
تھرپس:
یہ کیڑا پتوں کی نچلی سطح سے رس چوستا ہے اور پتوں کو کمزور کرتا ہے
تدارک:
- ایسی فیٹ ((Acephate 3گرام فی لیٹر پانی میں ڈال کرسپرے کریں۔
-
ملی بگ:
یہ کیڑا بیلوں پر پتوں سے رس چوستا ہے جس سے پتے کمزور ہو کر خشک ہو جاتے ہیں اور مر جاتے ہیں شدید حملے کی صورت میں پیداوار میں خاطر خواہ کمی ہوتی ہے۔
تدارک:
- کلو رپائر یفاس ( Chlorpyrifos )بحساب 3 ملی لیٹر پانی میں ڈال کر سپرے کریں۔
-
دیمک:
یہ کیڑا پودوں کونا قابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے اس کا حملہ پودے کے تنے اور جڑوں پر ہوتا ہے اور یہ اسے سوراخ دار کر دیتا ہے جس کی وجہ سے پودا چند دنوں میں مر جاتا ہے
تدارک:
- دیمک کا حملہ ظاہر ہونے پر 5 ملی لیٹر کلو پا ئریفاس Chlorpyrifos)) 3 لیٹر پانی میں کر کے پودے کی جڑوں میں ڈالیں۔
جڑی بوٹیوں کی روک تھام
آبپاشی
آبپاشی۔
آبپاشی زمین کی حالت اور درجہ حرارت پر منحصر کر تی ہے۔ بار آور پودوں کی شاخ تراشی کے بعد ضروری کے وسط میں پہلا پانی دیں دوسرا پانی مارچ کے پہلے ہفتے میں دیں پھل بننے کے بعد اپریل میں دس دن کا وقفہ رکھیں جبکہ مئی اور جون میں 4 سے 6 دن کے وقفہ سے آبپاشی دیں اگر اکتوبر کے دوران بارشیں نہ ہوں تو پانی دس دن کے وقعہ سے لگائیں جبکہ تومیر سے جنوری تک صرف ایک پانی دیں۔
کھادیں
کھادوں کا استعمال:
انگور کے پودوں سے بہتر پیداوار حاصل کرنے کے لیے ان کو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے یہ خوراک قدرتی (گوبر) اور کیمیا ئی کھادوں سے حاصل کی جا سکتی ہے
مختلف غذائی اجزاء کا سالانہ گوشوارہ بلحاظ عمر
پودے کی عمر |
گوبرکی کھاد(کلوگرام) |
نائٹروجن (گرام) |
فاسفورس (گرام) |
پوٹاس (گرام) |
ایک سال |
- |
100 |
- |
- |
دو سال |
5 |
150 |
100 |
150 |
تین سال اوراس کے بعد |
7 |
200 |
150 |
250 |
انگور کی بیلو ں کی گوبر کی کھاد صرف دسمبر میں ڈالیں اورفاسفورس سال میں صرف ایک مرتبہ فروری
تفصیلات کھاد
میں کانٹ چھانٹ کےبعد ڈالیں جبکہ نائٹروجن اور پوٹاش سال میں دو دفعہ دیں آدھی مقدار کانت چھانٹ کےبعد فروری میں بقیہ مقدار پھل بننے کے بعد اپریل میں ڈالیں۔ گوبر کی کھاد ہمیشہ گلی ساری ڈالیں کیونکہ کچی کھاد دیمک کا سبب بنتی ہے جو انگور کی فصل کے لیے نقصان دہ ہے۔ کھاد ڈالنے کے بعد ہلکی گوڈی کریں اور پانی لگا دیں۔
کٹائی
ذخائر
Crop Calendar
فصل کا منصوبہ
آب و ہوا :۔
انگور کی کاشت کے لیے ایسے علاقے موزوں ہیں جہاں موسم گرما میں بارشیں کم ہوں اور موسم گرم اور خشک ہو جبکہ دن کا دورانیہ زیادہ ہو اور انگور کی بیلوں کو زیادہ مقدار میں دھوپ میسر ہو۔ درجہ حرارت انگور کے معیار اور مٹھاس پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر موسم گرما میں درجہ حرارت زیادہ ہو تو انگور کی مٹھاس زیادہ ہو گی۔ موسم سرما میں درجہ حرات کم ہونے کی وجہ سے سارے پتے جھڑ جاتے ہیں اورپودے خوابیدگی کی حالت میں چلے جاتے ہیں۔
افزائش نسل کے لیے26- 32 ڈگری موزوں ہے بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ چکوال کے زیر نگرانی کیے گئے تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ پوٹھوار کے علاوہ فیصل آباد اور سرگودھا انگور کی کاشت کے لیے موزوں ہیں جبکہ جنوبی پنجاب کے اضلاع مثلاً ڈیرہ غازی خان، بہاولنگر ، لودھراں اور بہاولپور میں بھی کامیابی سے کاشت کیا جا سکتا ہے تاہم ان علاقوں میں اگیتی کاشت کرنی چاہیے جو مون سون سے پہلے پک کر تیار ہو جائیں۔