گندم

گندم پاکستان کے لوگوں کی خوراک کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ پاکستان کی زمین اور موسم دونوں ہی گندم کی کاشت کے لئے موزوں ہیں اسلئے یہ پاکستان کی سب سے زیادہ کاشت کی جانے والی فصل ہے۔

فصل کے بارے

پیداواری منصوبہ برائے گندم  2020-21

اہمیت

گندم ایک اہم غذائی فصل ہے اور بہت سے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کے لوگوں کی بنیادی خوراک ہے۔ملکی غذائی ضروریات کو پورا کرنے اور گندم کی فصل کو زیادہ منافع بخش بنانے کے لئے   اس کی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم پاکستان کے زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت ملکی زرعی ترقی اور کاشتکاروں کی خوشحالی کے لیے حکومت ِ پنجاب کے اشتراک سے 12.5ارب روپے سے گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کے قومی پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے۔جس میں سال 2019-20کے دوران پروجیکٹ کی سرگرمیاں عمل میں لائی گئیں اور اسی طرح سال 2020-21 کے دوران کاشتکاروں کو رعایتی نرخوں پر گندم کا تصدیق شدہ اور بیماریوں سے پاک بیج،زرعی آلات،مشینری،جڑی بوٹی مار ادویات اور عناصر صغیرہ فراہم کئے جائیں گے۔ علاوہ ازیں کاشتکاروں میں جدید زرعی ٹیکنالوجی متعارف کروانے کے لیے نمائشی پلاٹ،سیمنار اور یومِ کاشتکاران کا انعقاد کیا جائے گاجس سے گندم کی فی ایکڑ پیداوار اور کاشتکاروں کی آمدن میں اضافہ ہو گا۔گندم کی جدید پیداواری ٹیکنالوجی کے تمام پہلوؤں پر عمل کر کے فصل کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ پنجاب میں پچھلے پانچ سالوں میں گندم کا رقبہ، کل پیداوار اور اوسط پیداوار گوشوارہ نمبر1میں دی گئی ہے۔

گوشوارہ نمبر1: پنجاب میں پچھلے پانچ سالوں میں گندم کا رقبہ،کل پیداوار اور اوسط پیداوار

سال رقبہ (ہزار  ایکڑ) رقبہ     (ہزار ہیکٹر) کل پیداوار (ہزار  میٹرک ٹن) اوسط پیداوار (من  فی  ایکڑ ) اوسط پیداوار ( کلوگرام  فی  ہیکٹر)
2015-16 17085 6913.92 19527 30.62 2824
2016-17 16458 6660.19 20466 33.32 3073
2017-18  16210 6559.83 19178 31.70 2924
2018-19 16052 6496 18377 30.67 2829
2019-20   16100 6515 19402 32.29 2978
2020-21 16670 6746 20900 31.34 3098

(مندرجہ بالا اعدادو شمار ادارہ کراپ رپوٹنگ سروسز پنجاب سے لیے گئے ہیں)۔
سال 2020-21 میں پاکستان میں گندم کی فصل 9178 ہزار ہیکٹر پر کاشت کی گئی۔ جس سے 27293 ہزار ٹن پیداوار حاصل ہوئی۔ 

بیج

ترقی دادہ اقسام اور ان کا وقت کاشت

فصل کی بہتر اور معیاری پیداوار کے حصول کے لئے ترقی دادہ قسم کے صاف ستھرے، صحتمند اور بیماریوں سے پاک بیج کی اہمیت مسلمہ ہے۔ گندم کی سفارش کردہ اقسام اور ان کا موزوں وقت کاشت گوشوارہ نمبر 2  میں دیا گیا ہے۔

گوشوارہ نمبر 2:  سفارش کردہ اقسام و موزوں وقت کاشت

الف: بر ائے آبپاش علاقہ جات

قسم وقت کاشت کاشت کے لئے موزوں علاقے
اکبر۔19 یکم نومبر  تا 10 دسمبر پنجاب کے تمام آبپاش علاقے
غازی۔19 یکم نومبر  تا 10 دسمبر پنجاب کے تمام آبپاش علاقے
بھکرسٹار یکم نومبر  تا 10 دسمبر پنجاب کے تمام آبپاش علاقے
  فخر بھکّر یکم تا 20 نومبر  پنجاب کے تمام آبپاش علاقے
ا ناج 2017 یکم نومبر  تا 10 دسمبر پنجاب کے تمام آبپاش علاقے
زنکول 2016 یکم نومبر  تا 10 دسمبر پنجاب کے تمام آبپاش علاقے
این این گندم1-٭٭ یکم نومبر  تا 10 دسمبر پنجاب کے تمام آبپاش علاقے
گولڈ 2016  یکم نومبر  تا 10 دسمبر پنجاب کے تمام جنوبی اضلاع
جوہر2016 یکم نومبر  تا 10 دسمبر پنجاب کے تمام جنوبی اضلاع
بورلاگ 2016 یکم نومبر  تا 10 دسمبر پنجاب کے تمام آبپاش علاقے
اجالا 2016 یکم نومبر  تا 10 دسمبر پنجاب کے تمام آبپاش علاقے
گلیکسی 2013٭٭ یکم تا 30 نومبر پنجاب کے تمام آبپاش علاقے
آس2011 یکم نومبر  تا 10 دسمبر پنجاب کے تمام جنوبی اضلاع
 ملت2011٭ یکم نومبر  تا 10 دسمبر پنجاب کے تمام جنوبی اضلاع
فیصل آباد ۔  2008٭ یکم نومبر  تا 10 دسمبر پنجاب کے تمام آبپاش علاقے۔ کلراٹھی اور پانی کی کمی والی زمین کے لئے بھی موزوں 
لاثانی۔2008٭ یکم نومبر  تا 10 دسمبر پنجاب کے تمام آبپاش علاقے

ب:  برائے بارانی علاقہ جات

قسم وقت کاشت کاشت کے لئے موزوں علاقے
مرکز۔19 20 اکتوبر تا 15 نومبر پنجاب کے تمام بارانی  علاقے
بارانی 2017 20 اکتوبرتا 15 نومبر پنجاب کے تمام بارانی  علاقے
احسان 2016 20 اکتوبرتا 15 نومبر پنجاب کے تمام بارانی  علاقے
فتح جنگ 2016 20 اکتوبرتا 15 نومبر پنجاب کے تمام بارانی  علاقے
پاکستان2013 20 اکتوبرتا 15 نومبر پنجاب کے تمام بارانی  علاقے
دھرابی2011٭ 20 اکتوبرتا 15 نومبر پنجاب کے تمام بارانی  علاقے
بارس 2009 20 اکتوبرتا 15 نومبر پنجاب کے تمام بارانی  علاقے

نوٹ: ٭ یہ اقسام کنگی سے متاثر ہوتی  ہیں ان کو کم رقبہ پر کاشت کریں۔٭٭ یہ اقسام کنگی سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہیں ان کو کم سے کم رقبہ پر کاشت کریں اور اگلے سال ان کی کاشت کی منصوبہ بندی نہ کریں۔

موزوں وقت کاشت کی اہمیت

گندم کی بہتر پیداوار  حاصل کرنے کیلئے اسکی کاشت کا موزوں ترین وقت یکم نومبرتا30نومبرہے۔ محکمہ زراعت کی تحقیق کے مطابق 30نومبر کے بعد کاشت کی گئی فصل کی پیداوار میں روزانہ کی بنیاد پر کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ ہمارے ہاں گندم کی َفصلَ جنوری کے شروع تک کاشت ہوتی رہتی ہے جس سے پیداوار میں % 50 تک کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اس لئے کاشت  کار بھائی پوری کوشش کرکے گندم کو بروقت کاشت کریں تاکہ کاشت کاراور ملک دونوں کا فائدہ ہو۔

شرح بیج

آبپاش و بارانی علاقے
30 نومبر تک بوائی کے لئے یکم تا 10دسمبر 50-40 کلو گرام فی ایکڑ
-50 55 کلو گرام فی ایکڑ
بیج کے اگاؤ کی شرح 85 فیصد سے ہرگز کم نہیں ہونی چاہئے۔ بصورت دیگر شرح بیج میں مناسب اضافہ کرلینا چاہئے۔

پچھیتی فصل

پچھیتی کاشتہ گندم کے لئے شرح بیج میں اضافہ اس لئے ضروری ہے کہ درجہ حرارت میں کمی کی وجہ سے بیج تا خیرسے اگتا ہے،پودا شگوفے کم بناتاہے اور سٹے بھی چھوٹے رہ جاتے ہیں۔لہٰذا بیج کی مقدار ایک حد تک بڑھانے سے بنیادی شاخوں میں اضافہ ہو گا جو پیداوار میں اضافے کا سبب بنے گا۔ مزید براں شرح بیج میں مذکورہ اضافہ جڑی بوٹیوں کے کنٹرول کے لئے بھی معاون ثابت ہوگا کیونکہ فصل کے پودوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے جڑی بوٹیوں کو پھلنے پھولنے کا موقع کم ملے گا۔

بیج کی دستیابی

گندم کی ترقی دادہ اقسام کا بیج پنجاب سیڈ کارپوریشن اور دوسری پرائیویٹ کمپنیوں کے ڈپوؤں اور ڈیلروں سے دستیاب ہے۔ اس سہولت سے فائدہ اٹھائیں اور  بیماریوں سے پاک تصدیق شدہ  بیج ہی استعمال کریں۔اس سال پنجاب سیڈ کارپوریشن کے پاس گندم کی مختلف اقسام کے بیج کے 1250802تھیلے  (40کلو گرام فی تھیلا) دستیاب ہیں۔کاشتکار بھائی بیج خریدتے وقت فیڈرل سیڈ سرٹیفیکیشن کا تصدیق شدہ بیج کے متعلقہ ٹیگ کی تسلی ضرورکریں۔

 بیج کو زہر لگانا

گندم کی مختلف بیماریوں میں کانگیاری، کرنال بنٹ،گندم کی بلاسٹ اور اکھیڑا وغیرہ زیا د ہ نقصان دہ ہیں اور پیداوار میں نقصان کا باعث بنتی ہیں۔ ان پر قابو پانے کے لئے بیج کو بوائی سے پہلے تھائیو فنیٹ میتھائل بحساب دوتا اڑھائی گرام فی کلو گرام بیج یا امیڈا کلوپرڈ +ٹیبو کونا زول بحساب  2 ملی لیٹر فی کلو گرام بیج  لگائیں۔ بہتر ہے کہ بیج کو زہر لگانے کے لئے گھومنے والا ڈرم استعمال کریں تاہم اگر یہ میسر نہ ہو تو پلاسٹک کی ایک  بوری میں وزن شدہ بیج اور سفارش کردہ زہر ڈال کر بوری کا منہ باندھیں  اوردونوں طرف سے پکڑ کر اچھی طرح ہلائیں تاکہ بیج کے ہر دانے کو زہر لگ جائے۔ خیال رہے کہ بوری کو تقریباً آدھا بھرا جائے۔

کاشت

ایکڑ کی پیمائش

پنجاب کے  مختلف  علاقوں میں ایکڑ کی پیمائش مختلف ہے۔ زیادہ تر ایکڑ  8 کنال کا ہی ہے لیکن بعض  جگہوں پریہ سوا 7کنال اور بعض پر9کنال کا بھی ہے۔اس کتابچہ میں دی گئی سفارشات 8کنال والے ایکڑ  یعنی 43560مربع  فٹ کے لئے ہیں۔ کاشتکار بھائیوں سے گذارش ہے کہ زرعی مداخل یعنی بیج،کھاد اور زرعی زہروں وغیرہ کی  مقدار کا تعیں کرتے وقت اپنے کھیت کی پیمائش کو ضرور مد نظر رکھیں۔

ہمواری زمین

گندم کی اچھی پیداوار لینے کے لئے زمین کا ہموار ہونا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر زمین ہموار ہوگی تو سارے کھیت میں  راؤنی  کا پانی یکساں لگے گا اور وتر یکساں ہونے کی وجہ سے اگاؤ یکساں اور بہتر ہوگا،نیز زرعی مداخل بھی یکساں طور پر سارے کھیت میں تقسیم ہونگے۔سب سے اہم یہ کہ گندم کی فصل کو دی جانے والی آبپاشی خصوصاً پہلی آبپاشی مطلوبہ اور یکساں مقدار میں دی جاسکے گی اور اس طرح پانی کی کمی یا زیادتی کا فصل پر برا اثر پر نہیں پڑے گا اور فصل کی بڑھوتری بہتر اور یکساں رہے گی۔ لہذا گندم کی کاشت کے لئے مختص کی جانے والی زمین  ہموار ہونی چاہیئے۔ بہتر ہے کہ اس کے لئے لیزر لینڈ لیولر استعمال کریں۔

زمین کی تیاری

گندم کی فصل کی  بوائی  کے لئے زمین اچھی طرح تیار کریں۔وریال کھیتوں میں دو یاتین مرتبہ وقفہ وقفہ سے ہل چلائیں۔ اس سے جڑی بوٹیاں تلف ہو جاتی ہیں اور موسمی اثرات سے زمین میں موجود غذائی عناصر پود ے کے لئے قابل حصو ل  حالت میں  تبدیل ہو جاتے ہیں۔

  • جہاں کہیں ضرورت ہو کر اہ /لیزرلیولرسے زمین کو ہموار کریں۔
  • راؤنی سے پہلے کھیتوں کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کریں تاکہ کم پانی یکساں اور مطلوبہ مقدار میں دیا جاسکے۔
  • راؤنی کے بعد وتر آنے پر بوائی سے کچھ دن پہلے صبح سویرے  ہل چلائیں اور سہاگہ دیں۔ یہ عمل دو تین باردوہرانے سے جڑی بوٹیاں تلف ہو جائیں گی اور زمین کی نیچے کی نمی اوپر آجائے گی جو گندم کے اچھے اگاؤ کی ضامن ہوگی۔جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے یہ عمل بہت اہمیت کا حامل ہے۔داب کا طریقہ اگیتی اور درمیانی کاشت میں باآسانی اختیارکیا جا سکتا ہے لیکن پچھیتی کاشت میں وقت کی کمی کی وجہ سے یہ طریقہ نہیں اپنایا جا سکتا۔
  • سیلابہ کے علاقہ میں زمین کو ہموار کرکے گہرا ہل چلائیں تاکہ مناسب نمی میسر ہو۔ آخری تیاری میں بھاری اور میرا زمین میں دو بار جبکہ ہلکی اور ریتلی  زمین میں صرف ایک بار ہل چلائیں اور سہاگہ دیں۔

طریقہ کاشت

پنجاب کے آبپاش علاقوں میں گندم کی بیشتر کاشت کپاس، دھان، کماد  یا مکئی کے وڈھ میں اور کچھ رقبہ پر وریال زمینوں پر کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بارانی علاقوں میں واقع رقبہ بھی گندم کے زیر کاشت لایا جاتا ہے لہٰذا مختلف فصلات کے بعد گندم کی کاشت کے طریقہ جات کی تفصیل درج ذیل ہے۔

آبپاش علاقوں کے لئے طریقہ کاشت

 کپاس، مکئی اور کماد کے بعد گندم کی کاشت

الف۔ وتر کا طریقہ

کپاس کی چھڑیاں اور مکئی کے ٹانڈے کاٹنے سے 15تا20 یوم قبل کھیت کو پانی دیں تاکہ چھڑیاں وغیرہ کاٹتے وقت زمین وتر حالت میں ہو اور کم سے کم وقت میں تیار کرکے گندم کاشت کی جا سکے۔ چھڑیاں کاٹنے کے فوراً بعد دو مرتبہ ہل اور ایک مرتبہ روٹاویٹرچلائیں۔ اگر روٹاویٹر میسر نہ ہو تو بھاری سہاگہ دیں۔ اس کے بعد  کاشت  بذریعہ ڈرل کریں اس سے بیج یکساں اور مناسب گہرائی پر جاتا ہے اور اگاؤ  بہتر ہوتا ہے۔

ب۔ خشک طریقہ

سابقہ فصلکی برداشت کے بعد دو مرتبہ عام ہل اور ایک مرتبہ روٹاویٹر یا ڈسک ہیرو  چلائیں۔ بوائی بذریعہ ڈرل کریں اور کھیت کو پانی لگا دیں۔خیال رہے کہ ڈرل کردہ بیج کی گہرائی ایک انچ سے زیادہ نہ ہو۔ اس طریقہ کاشت سے وقت کی بچت ہوتی ہے اور اگاؤ بھی جلدی ہوتا ہے کیونکہ بیج کو مطلوبہ پانی وافر مقدار میں میسر آتا ہے۔

ج۔ گپ چھٹ کا طریقہ

پچھلی فصل کی برداشت کے بعد دو مرتبہ عام ہل چلائیں اور بھاری سہاگہ دیں۔ بعد ازاں کھیت کو پانی  لگادیں اورپھر 4 تا 6 گھنٹے بھگوئے ہوئے بیج کا چھٹہ دیں۔ یہ طریقہ کاشت کلراٹھی زمینوں کے لئے بہت موزوں ہے کیونکہ پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے نمکیات کے مضر اثرات کم  ہوتے ہیں۔سخت زمینوں میں اس طریقہ سے گندم کاشت کرنے کیلئے بیج کو بھگونا ضروری نہیں ہے۔

دھان کے بعد کاشت

دھان کی فصل کو برداشت سے15 روز قبل پانی دینا بند کر دیں تاکہ فصل برداشت ہونے تک زمین وتر حالت میں آجائے اور بغیر انتظار کئے گندم کاشت ہو سکے۔ برداشت کے بعد وتر حالت میں ایک مرتبہ روٹاویٹر (Rotavator) یا دو دفعہ ڈسک ہیرو چلائیں۔ اس کے بعد ہل اور سہاگہ چلائیں اور گندم کاشت کریں۔دھان کی کٹائی کے بعد دھان کے مڈھوں اور باقیات کو آگ نہ لگائیں اس سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔انسانی صحت پر اسکے دھوئیں کے مضر اثرات ہوتے ہیں اورفصل کی باقیات   وزمین میں موجود اہم غذائی عناصر اور مفید کیڑے و خوردبینی جاندار جل کر ضائع ہو جاتے ہیں لہذا اگر زیروٹیلیج ڈرل یا پاک  سیڈر(Pak Seeder) میسر ہوتو دھان کی برداشت کے بعد وتر میں گندم کی فصل اس سے کاشت کریں۔اس سے  نہ صرف زمین کی تیاری پر آنے والے اخراجات کی بچت ہو گی بلکہ فصل کی بروقت کاشت کو بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔کمبائن ہا رویسٹر سے دھان کی برداشت کے بعد کھیتوں میں ڈھیریوں کی شکل میں موجود فصل کی باقیات کو پھیلا دیں اورپھر زیرو ٹیلج  یا پاک سیڈر  ڈرل سے گندم کی کاشت کریں۔اس طریقہ کاشت کو اختیارکرتے ہوئے  ماحولیاتی آلودگی میں کمی کی جا سکتی ہے۔

پٹریو ں پر کا شت (Bed Planting)

گندم کو پٹریو ں پر کا شت کر نے کا طریقہ بھی رواج پا رہا ہے۔ گندم کو پٹڑیوں پر کا شت کرنے سے ایک تو پانی کی بچت ہوتی ہے اور دوسرا فصل نہیں گرتی اور اس سے بہتر پیداوار حاصل ہوتی ہے۔مز ید برا ں پٹڑیو ں پر کا شت کی گئی گندم میں کما د، سرسوں و غیر ہ کی مخلو ط کا شت بھی آ سا نی سے کی جا سکتی ہے۔ پٹریوں پر گندم کی کاشت کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں۔

  • 30 سے 50فیصد تک پانی کی بچت ہوتی ہے۔
  • پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
  • کھادوں کے صحیح استعمال سے پیداوار بڑھ جاتی ہے۔
  • کلراٹھی زمینوں میں نمکین پانی کے استعمال سے بھی فصل زیاد ہ متاثر نہیں ہوتی ہے۔
  • فصل کی جڑیں زمین میں زیادہ گہری چلی جاتی ہیں اور مضبوط ہونے کی وجہ سے آندھی یا بارش کی وجہ سے فصل نہیں گرتی۔
  • زیادہ بارش یا پہلے پانی کے بعد پیلی نہیں ہوتی اور روایتی طریقہ کی نسبت اچھی پیداوار دیتی ہے۔

گندم کی کاشت کے بعد کھیلیاں بنانا

محکمہ زراعت شعبہ ریسرچ، اڈاپٹیو ریسرچ اور پی اے آر سی کے تجربات کے مطابق  چھٹہ کے طریقہ سے کاشت کے بعد رجرکے ساتھ کھیلیاں بنا نے  سے نہ صرف پانی کی بچت ہوتی ہے بلکہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ بھی ہو تا ہے۔ اس طریقہ کاشت سے تمام آب پاش علاقوں میں مثبت نتائج حاصل ہوئے ہیں خصوصاً چاول کے علاقہ  اور چکنی زمینوں پر بہت زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں تا ہم ریتلی زمینوں میں یہ طریقہ  زیادہ فائدہ مند نہیں ہے۔ریتلی زمینوں میں اس طریقہ  میں عام طریقہ کی نسبت دس فیصد زیادہ بیج استعمال کریں۔

کھڑی کپاس میں گندم کی کاشت

گندم کوبروقت کاشت کرنے  کے لئے کھڑی کپاس میں گندم کی کاشت  کے  طریقے کواپنایا جا سکتا ہے۔ گندم کی کاشت سے پہلے کھلی ہوئی کپاس کی چنائی مکمل کر لیں اور پھر کھیت کو پانی سے بھر دیں۔اگر وٹیں وغیرہ ہوں تو انہیں بھی پانی سے تر کر لیں۔اگر زمین میرا ہو تو پانی کھڑا ہونے کے فوراً بعد گندم کے بھیگے ہوئے بیج کا یکساں دوہرا چھٹہ دے دیا جائے۔البتہ اگر زمین سخت ہو اور پانی زیادہ دیر تک کھڑا رہتا ہو تو بیج کو بھگونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ کھیت میں موجود پانی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مناسب وقفہ کے بعد خشک بیج کا چھٹہ کریں۔بیج کو کیڑے مکوڑوں سے بچایا جائے۔ جس کھیت میں گندم کاشت کرنی ہو اس کا جڑی بوٹیوں سے خاص طور پر پاک ہونا ضروری ہے۔کھڑی کپاس میں گندم کی کاشت کے حوالہ  سے دوسری تمام سفارشات کے ساتھ مندرجہ ذیل  نکات کا بھی خیال رکھیں۔

  • کھڑی کپاس میں گندم کی کاشت کا بہترین وقت 10 نومبر تا 25نومبر ہے۔
  • شرح بیج 55 تا 60 کلو گرام فی ایکڑ رکھیں۔زمین کی بافت کے مطابق شرح بیج میں ردو بدل کیا جاسکتا ہے۔
  • سفارش کردہ کھادیں۔ کپاس کی چھڑیاں کاٹنے کے بعد استعمال کریں اور نائٹروجنی کھاد کی دوسری قسط دوسرے پانی کے ساتھ ڈالیں۔کھاد ڈال کر پانی لگاتے وقت اس بات کا خصوصی خیال رکھیں کہ پانی پٹڑیوں کے اوپر تک چڑھ جائے وگرنہ کھادکی افادیت میں کمی آئے گی۔
  • دسمبر کے آخر یا جنوری کے شروع میں یعنی بوائی کے 30 تا 40 دن بعد کپاس کی چھڑیوں کو کاٹ لیں اور ان پر لگے ہوئے ٹینڈوں کو توڑ لیا جائے۔ چھڑیاں زمین کی سطح سے تقریباً 2 انچ گہری کاٹیں اور کھیت سے فورا باہر نکال لیں۔

بارانی علاقوں میں طریقہ کاشت

مو ن سو ن کی پہلی بارش کے بعدزمین میں مولڈ بولڈ (مٹی پلٹنے والا ہل) یا چیزل پلو چلائیں تاکہ زمین کافی گہرائی تک بھربھری ہو جائے اور زیادہ پانی جذب کر سکے۔ گندم کی کاشت سے قبل ضرووت کے مطابق  ہل چلاکر سہاگہ دیں تاکہ جڑی بوٹیاں تلف ہو سکیں اور زمین پر بھربھری مٹی کی تہہ بن جائے اور زیادہ  پانی جذب ہو کر محفوظ ہوسکے۔بوائی سے پہلے دو مرتبہ عام ہل چلائیں اور بھاری سہاگہ دیں تاکہ وتر زمین کی اوپر والی تہہ میں آ جائے۔ گندم بذریعہ ڈرل کاشت کریں۔سفارش کردہ کھاد کی ساری مقدار بوائی سے پہلے زمین کی تیاری کے وقت ڈالیں۔بارانی  یونیورسٹی کے تجربات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بارانی علاقوں میں گندم کی کٹائی کے فورا بعد چارہ خصوصاً جوارکی کاشت سے کراپنگIntensityبڑھائی جا سکتی ہے۔

بارانی علاقوں میں دو فصلی کاشت

مختلف تجربات کی روشنی میں یہ اخذکیا گیا ہے کہ بدلتے موسمی حالات میں گندم کی کاشت وپیدا وار متاثر کئے بغیرخریف میں ایک اور فصل بھی حاصل کی جا سکتی ہے جس کی تفصیل درج ذیل  ہے۔

 جنتر اور جوار کی بطورسبز کھاد کا شت 

اگر جون میں جنتر اور جوارکی کاشت کی جائے اور 15سے20اگست تک (تقریباً2مہینے بعد) اسے زمیں میں دبا دیا جائے تو  زمین کی زرخیزی میں اضافہ ہوگا اور گندم کی اچھی پیداوارحاصل ہوگی۔

چارے کی کاشت

بارانی علاقوں میں موسم برسات کے شروع میں مکئی،جواریاباجرے کی فصل بطور چارہ کاشت کی جا سکتی ہے۔ اگر پھلی دار اور غیر پھلی دار چاروں کو 70اور 30کے تناسب سے کاشت کیا جائے تو زیادہ فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

 مکئی اورسویابین کی مخلوط کا شت

تجربات کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ موسم برسات کے شروع ہوتے ہی مکئی اور سویابین کو 2اور4کی نسبت سے مخلوط طور پر کامیابی سے کاشت کیا جاسکتا ہے اور گندم کی بھی اچھی پیداوار لی جاسکتی ہے۔اس طرح زمین کی زرخیزی بڑھانے کے ساتھ فی ایکڑ آمدن میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

ڈرل سے گندم کی کاشت کے فوائد اور طریقہ

ڈرل کے ذریعہ کا شت ا ور کھاد کے استعمال سے کھاد پودوں کی جڑوں کے قریب گرتی ہے اور زیادہ دستیاب رہتی ہے اور اس کی افادیت بڑھ جاتی ہے۔ فصل کا اگاؤ  یکساں اور زیادہ ہوتا ہے۔ اکثر کاشت کار بیج کو ڈرل کرتے وقت ڈرل کافی گہری کردیتے ہیں۔ جس سے بیج دیر سے اگتا ہے اور زیادہ شگوفے بھی نہیں بنتے اور فصل کمزور رہ جاتی ہے جس سے پیداوار میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ ڈرل کے ذریعے کاشت کرتے وقت  ڈرل کو اس طرح ایڈجسٹ کریں کہ بیج دو تا اڑھائی انچ گہرائی پر گرے۔

ڈرل مشین کی کیلی بریشن

بوائی سے پہلے  ڈرل مشین کی کیلی بریشن یعنی اس کی  بیج ڈالنے کی شرح کو جانچنا ضروری ہے۔اس کے لیے ڈرل  کے بیج بکس میں بیج ڈالیں۔ہر سیڈ ٹیوب کے آگے پلاسٹک کا لفافہ چڑھا لیں۔ ڈرل کو ٹریکٹر کے ساتھ جوڑکر چلائیں کچھ فاصلے پر جا کر ڈرل کو روک دیں۔سیڈ ٹیوب کے آگے لگے ہوئے لفافوں والے بیج کا  وزن کر لیں۔ ڈرل کی چوڑائی اور طے کردہ فاصلے کو ضرب دے کر رقبہ معلوم کر لیں۔لفافوں سے حاصل شدہ بیج کے وزن کو اس رقبہ پرتقسیم کریں تو بیج کی شرح فی اکائی رقبہ معلوم ہو جائے گی۔

بیماریاں

گوشوارہ نمبر 8:    گندم کی بیماریاں، علامات اور ان کا انسداد

نام بیماری وجہ بیماری علامات انسداد
کنگی 
(Rust)

اس مرض کی وجہ پھپھوندی ہے۔

پاکستان میں تین قسم کی کنگی ہوتی ہے۔

  1. زرد کنگی (Yellow Rust)
  2. بھوری کنگی (Brown Leaf Rust)
  3. سیاہ کنگی (Stem Rust)
موسم سرما میں بارشیں اس بیماری کے پھیلنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ زردکنگی میں زرد رنگ کے چھوٹے چھوٹے دھبے متوازی قطاروں میں یا لائنوں میں صف بستہ ہوتے ہیں۔بھوری کنگی میں بھورے رنگ کے دھبے گول کی بجائے بے ترتیب اور منتشر ہوتے ہیں۔سیاہ کنگی میں کنگی کے گہرے بھورے رنگ کے دھبے پتوں اور تنے پر بڑے سائز کے ہوتے ہیں۔
  • کنگی کی تمام اقسام کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی سفارش کردہ اقسام  کاشت کریں۔
  • زیادہ رقبہ پر ایک قسم کی بجائے تین چار اقسام کاشت کریں۔
  • فصل کی کاشت نومبر میں کریں کیونکہ اس پر کنگی کا حملہ پچھیتی فصل کی نسبت کم ہوتا ہے۔
  • غیر ضروری طور پر آبپاشی سے اجتناب کریں۔
گندم کی جدید یا جزوی کانگیاری
کرنال بنٹ
(Karnal Bunt)
اس بیماری کی وجہ ایک پھپھوندی (Tilletia indica) ہے اس بیماری میں پودے کے چند شگوفے بیمار ہوتے ہیں۔ بقیہ چند سٹے اور ہر سٹے میں سے چند دانے بیماری  کے حملہ کا شکار ہوتے ہیں۔ بیماری کا حملہ سٹے نمودار ہونے پر ہوتا ہے۔ بیج کا کچھ حصہ پھپھوندی سے متاثر ہوتا ہے اور باقی حصہ میں Starch محفوظ رہتا ہے۔
  • قوت مدافعت رکھنے والی اقسام کاشت کریں۔
  • بیج کو سفارش کردہ پھپھوندی کش زہر لگا کر  کاشت کریں۔
گندم کی کھلی کانگیاری
(Loose Smut)
یہ بیماری ایک قسم کی پھپھوندی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جس کا نام (Ustilago tritici) ہے۔ یہ بیماری سیاہ سفوفی خوشوں کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ سیاہ رنگ کا یہ سفوف جو کہ دانوں کی جگہ بیمار خوشوں میں نظر آتا ہے دراصل بیماری پیدا کرنے والی پھپھوندی کے اثمار ہیں۔ ہوا کے ذریعے یہ اثمار خوشوں سے اڑ کر تندرست پودوں کی نوخیز بالیوں پر گر جاتے ہیں۔ بیماری دانے کے اندر موجود رہتی ہے۔ آئندہ سال یہ دانے بیج کے طور پر استعمال کرنے سے بیماری پیدا ہوجاتی ہے۔
  • بیج تندرست فصل سے رکھیں۔
  • مئی،جون میں بیج کو 4سے6 گھنٹے پانی میں بھگو کر دھوپ میں اچھی طرح سکھا کر آئندہ فصل کے لئے محفوظ کر لیں۔
  • بیج کو سفارش کردہ پھپھوندی کش زہر لگا کر  کاشت کریں۔
گندم کا اکھیڑا
(Foot Rot)
یہ مرض بھی پھپھوندی Fusarium sp کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ مرض پودوں پر دو دفعہ حملہ آور ہوتا ہے۔ پہلا حملہ پودکی حالت میں اور دوسرا جوان پودوں پر۔پہلی صورت میں روئیدگی بہت کم ہوتی ہے۔ دوسرا حملہ فروری سے مارچ میں ہوتا ہے۔ اس وقت متاثرہ پودے مرتے نہیں لیکن بالیاں یا تو بالکل دانوں سے محروم ہوجاتی ہیں یا دانے چھوٹے رہ جاتے ہیں۔
  • فصل کے خس و خاشاک اکٹھے کر کے تلف کر دیں۔
  • بیج تندرست استعمال کریں۔
  • قوت مدافعت رکھنے والی اقسام کاشت کریں۔
  • بیج کو سفارش کردہ پھپھوندی کش زہر لگا کرکاشت کریں۔
  • جہاں بیماری کا خطرہ ہو وہاں بوائی قدرے پچھیتی کرنی چاہیے۔
  • خشک زمین میں بوائی کر کے فوراً پانی لگانے سے بیماری کم ہو جاتی ہے۔
گندم کی سفوفی پھپھوند (Powdery mildew) یہ بیماری ایک قسم کی پھپھوندی کی وجہ سے ہوتی ہے جس کا نام (Erysiphe graminis) ہے۔ یہ بیماری گندم کے زمین کے اوپر والے تمام حصوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔ لیکن عام طور پر پتوں کے اوپر والی سطح پر سفید سفوفی دھبوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔پتے کا حملہ شدہ حصہ دوسری طرف سے بھورا   یا  گہرے بھورے رنگ کا ہوتا ہے۔اگر اس بیماری کا حملہ شروع موسم میں ہو جائے تو نقصان زیادہ ہوتا ہے۔دانے چُڑ مُڑ ہو کر باریک رہ جاتے ہیں اور پیداوار میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔  
  • اس بیماری کے تدارک کے لئے قوتِ مدافعت رکھنے والی منظور شدہ اقسام کاشت کریں۔

مندرجہ بالا بیماریوں کے علاوہ گندم کی ممنی،برگی کانگیاری اورپتوں کا جھلساؤ بھی فصل پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔بیج کو سفارش کردہ پھپھوندی کش زہر لگا کر کاشت کرنے سے اور دیگر سفارشات  پر عمل کرکے فصل کو ان سے  بچایا جا سکتا ہے۔

گندم کا خالص بیج پیدا کرنا

کاشتکار گندم کی سفارش کردہ  اقسام کا  صحت مند بیج  کاشت کریں جو  فیڈرل سیڈ سرٹیفیکیشن سے تصدیق شدہ ہو۔تا ہم تصدیق شدہ بیج کی عدم دستیابی کی صورت میں گندم کی منظور شدہ  اقسام کاخالص بیج اپنی کاشتہ فصل سے خود بھی پیدا کر ا ستعمال کرسکتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے درج ذیل ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔

  • غیر اقسام کے پودوں کوکھیت سے نکال دیں.
  • جڑی بوٹیوں تلف کریں.
  • کانگیاری والے تمام پودے کاٹ کر شاپرمیں ڈال کر دبا دیں۔
  • بھریاں باندھنے کے لئے پرالی یا اسی قسم کی گندم کا ناڑ استعمال کریں۔
  • زرعی مداخل محکمانہ سفارشات کے مطابق استعمال کریں.
  • مختلف اقسام کے الگ  کھلیان لگائیں۔
  • گہائی سے پہلے اور بعد میں تھریشر یا کمبائن مشین اچھی طرح صاف کر یں۔ پہلی ایک یا دو بوریوں کا بیج نہ رکھیں۔
  • بیج ڈالتے وقت بوریوں پر گندم کی قسم کا نام ضرور لکھیں۔
  • بیج میں نمی 10 فیصدسے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔
  • بیج ذخیرہ کرنے کے لئے روشن اور ہوادار گودام استعمال کریں۔
  • بیج کو گریڈ کرکے کاشت کریں۔

کیڑے

گوشوارہ نمبر 7:    گندم کے نقصان دہ کیڑے،پرندے،چوہے اور اُن کا انسداد

 نوٹ۔ گندم کی فصل پر زرعی زہریں ہرگز استعمال نہ کریںں ملائیں۔

نام کیڑا شناخت حملے/نقصان کا طریقہ انسدا
کالی چیونٹی
(Black Ant)
یہ عام چیونٹیوں کی طرح ہوتی ہے مگر جسامت میں بڑی ہوتی ہے۔ بوائی کے وقت کھیتوں سے دانے اٹھا کر لے جاتی ہیں۔ جس سے فصل کا مطلوبہ اگاؤ حاصل نہیں ہوتا۔
  • یہ کیڑا زمین میں گھر بنا کر رہتاہے۔ اس کے بل تلاش کر کے ان پرمناسب زہروں کا دھوڑا کریں۔
دیمک
(Termite)
یہ چھوٹا سا کیڑا ہوتا ہے۔ اس کا رنگ زردی مائل ہوتا ہے اور اپنا گھر زمین میں بنا کر خاندان کی شکل میں رہتا ہے۔  اس کیڑے کا حملہ فصلوں کی جڑوں پر ہوتا ہے۔ بارانی علاقوں میں حملہ نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ متاثرہ پودے پیلے پڑ جاتے ہیں اور شدید حملہ کی صورت میں مر جاتے ہیں۔ حملہ عام طور پر ٹکڑیوں میں ہوتا ہے۔
  • راؤنی کے وقت مناسب زہر استعمال کریں۔ اگر حملہ فصل اگنے کے بعد بھی ہو تو یہی زہر اسی مقدار میں آبپاشی کے ساتھ استعمال کریں۔
چور کیڑا
(Cut worm)
اس کی سنڈیاں دن کے وقت مڈھوں اور دراڑوں میں چھپی رہتی ہیں اور رات کے وقت حملہ کرتی ہے۔
 
اس کا حملہ اگتی ہوئی فصل پر ہوتا ہے اور پودوں کو سطح زمین سے کاٹ دیتا ہے۔کھاتا کم اور کاٹ کاٹ کر ضائع زیادہ کرتا ہے۔
 
پانی دینے سے بھی حملہ کم ہوجاتا ہے۔مناسب زہر کا دھوڑا کریں یا زہریلا طعمہ استعمال کریں۔
گندم کا سست تیلہ
(Aphid)
یہ سبزی مائل چھوٹا سا کیڑا ہے۔ جس کا جسم ناشپاتی کی طرح ہوتا ہے۔ جسم کے اوپر آخری حصے میں دو نالیاں نظر آتی ہیں جن سے میٹھا مادہ خارج ہوتاہے ۔جسکی وجہ سے پتوں پر کالی پھپھوندی اُگ آتی ہے ۔عام طور پر ایک جگہ پر اکٹھے پائے جاتے ہیں اور اگر ان کو چھیڑا بھی جائے تو بہت کم حرکت کرتے ہیں۔ یہ کیڑا پودوں کے پتوں، شگوفوں اور سٹوں کا رس چوستا ہے۔ جس سے پودا اور سٹے کمزور ہوجاتے ہیں۔ شدید حملے کی صورت میں دانے سکڑ جاتے ہیں اور پیداوار پر برااثر پڑتا ہے۔وسط فروری تا مارچ میں اس کا حملہ زیادہ ہوتا ہے۔ شدیدحملے کی صورت میں پتوں پر کالی اُلی اُگ آتی ہے۔ اس سے پتوں میں خوراک بنانے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔
  • عموماََ مفید کیڑے مثلاََ مختلف اقسام کی مفید بھونڈیاں (لیڈی برڈبیٹل) کرائی سوپا، مکڑی، سرفڈ فلائی اور طفیلی کیڑے اس کی تعداد کو بڑھنے نہیں دیتے۔ مفید کیڑوں کی پرورش کے لئے گندم کے کھیت میں سرسوں کی لائنیں لگائیں۔
  • بیج کو  بوائی سے پہلے سفارش کردہ کیڑے مار دوائی لگائیں۔
  • اگیتی کاشت کو فروغ دیں۔
  • پاور سپریئر کے ساتھ تیز پریشر سے پانی کا سپرے کریں۔
لشکری سنڈی 
(Army
Worm)

 
اس کیڑے کی سنڈی عام طور پر پتوں اور سٹوں پرپائی جاتی ہے۔ اس کے جسم پر دھاریاں ہوتی ہیں۔ کیونکہ لشکر کی صورت میں چلتی ہوئی ایک کھیت سے دوسرے کی طرف یلغار کرتی ہے ااس لئے اس کو لشکری سنڈی کہتے ہیں۔ یہ کیڑا بعض علاقوں میں کبھی کبھار وبائی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ گندم کے پتوں اور سٹوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔
  • حملہ شدہ کھیت کے گرد کھائیاں کھود دیں اور ان میں پانی چھوڑ دیں تاکہ رینگتی ہوئی سنڈیاں ان میں گرکر مر جائیںیا ان کو مٹی میں دبا دیں۔
  • حملہ شدہ کھیت کے گرد مناسب زہر کا دھوڑا کریں تاکہ سنڈیاں دوسرے کھیتوں پر حملہ آور نہ ہو سکیں۔
گلابی سنڈی
(Pink Borer)
اس کی سنڈی گلابی رنگ کی ہوتی ہے۔ یہ کیڑا سنڈی کی حالت میں سردیوں کے دن دھان کے مڈھوں میں گزارتا ہے۔ یہ کیڑازیادہ تر چاول کے علاقوں میں گندم کی فصل پر حملہ آور ہوتا ہے اور درمیانی کونپل کاٹ دیتا ہے۔ جو سوک جاتی ہے۔ اس کا حملہ دسمبر تا مارچ میں کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ متاثرہ سٹوں میں دانے نہیں بنتے۔اور سٹہ سفید نظر آتا ہے۔
  • دھان کی کٹائی کے بعد مڈھ تلف کر دیں۔
  • گندم کی متاثرہ شاخ کو اکھاڑ کر تلف کردیں۔ 
امریکن سنڈی
(Helicoverpa Spp)
بالغ پروانہ بھورے رنگ کا ہوتا ہے۔اگلے پروں پر سیاہ دھبہ ہوتا ہے۔ سنڈی جسامت میں بڑی اور سبز بھورے رنگ کی ہوتی ہے۔سنڈی کے طرفین میں لمبائی کے رخ دو لکیریں ہوتی ہیں۔انڈے کا رنگ سفیدی مائل زرد ہوتا ہے۔ اس کا حملہ کپاس کے علاقوں میں ہوتا ہے۔ سنڈیاں نومبر دسمبر میں گندم کے شگوفوں کو کھاتی ہیں۔ مارچ اپریل میں یہ سنڈیاں سٹوں پر حملہ آور ہوتی ہیں اور دانوں کو کھاتی ہیں۔ 
  • کپاس کی برداشت کے بعد چھڑیاں کاٹ کر زمین میں گہرا ہل چلائیں تاکہ زمین میں موجود پیوپے تلف ہو جائیں۔
  • جڑی بوٹیاں تلف کریں ۔
  • پروانوں کی تلفی کے لیے روشنی کے پھندے لگائیں۔
  • انڈوں کی تلفی کے لیے ٹرائیکوگراما کے کارڈز استعمال کریں۔
چوہے
(Rats)

 
عام طور پر کھیتوں میں چوہے کافی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ چوہے گندم کے علاوہ دوسری فصلوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ فصل کو کھاتے کم اور نقصان زیادہ کرتے ہیں۔ گندم کے علاوہ کماد، چاول، مکئی، پھلدار پودوں ، نرسریوں اور سبزیات کے پودوں کو کاٹ کر خراب کرتے ہیں اورنقصان پہنچاتے ہیں۔ نیز کھالوں اور وٹوں پر ان کے بلوں کی وجہ سے کافی مقدار میں پانی ضائع ہوجاتا ہے۔
  • چوہوں کے بلوں کو مٹی یا پانی سے بھر دیا جائے یا بلوں کو اکھاڑ کر چوہوں کو مارا جائے۔ مقامی طور پر دستیاب پنجرے اور پھندے لگا کر بھی ان کو تلف کیا جا سکتا ہے۔
  • ایک حصہ زہر(زنک فاسفائیڈ) کو 20 حصے آٹے میں ملا کر تھوڑے سے گڑ میں چھوٹی چھوٹی گولیاں بنائیں اور چوہوں کے بلوں کے پاس کھیتوں میں رکھ دیں۔ تاکہ جب چوہے نکلیں تو کھا کر مر جائیں۔
  • ایک حصہ زہر کو 20 حصے ابلے ہوئے مکئی کے دانوں کے ساتھ ملائیں اور بلوں کے قریب رکھیں۔
  • کھیتوں میں ایک گولی زہر فی بل رکھ کر بل کو مٹی سے بند کر دیں۔ گولیوں سے زہریلی گیس نکل کر چوہے کو بل کے اندر ہی ختم کر دے گی۔
  • نوٹ: زہریلی گولیاں یا زہر آلود دانے کھیت میں رکھیں تو بہت احتیاط کریں تاکہ مویشی، پالتو جانور اور جنگلی حیات ان کو نہ کھائیں۔
پرندے 
(چڑیاں،شارک 
اور کوے وغیرہ )

 
کوے اور شارک بجائی کے وقت بیج اٹھا لیتے ہیں اور نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
چڑیاں فصل پکنے پر حملہ کرتی ہیں۔ 
اگے  ہوئے پودوں کو اکھاڑ کر اور کھا کر نقصان پہنچاتی ہیں۔ چڑیوں کے جھنڈکے جھنڈ پکی ہوئی فصل کے سٹوں سے دانے نکال کر ضائع کر دیتے ہیں۔
  • چڑیوں کو شکار کرنے والے پرندوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ جالی یا پھندے لگا کر ان کو پکڑ کر بطور غذااستعمال کریں۔ ٹین کے ڈبے بجا کر بھی انہیں دور رکھا جا سکتا ہے۔ کپڑے یا مومی کاغذ کی جھنڈیاں کھیتوں میں لگانے سے پرندوں کو دور رکھاجا سکتا ہے۔
     

سست تیلے کا تدارک۔۔گندم میں سرسوں کی کاشت

گندم کی فصل میں 100فٹ کے فاصلہ پرسرسوں / کنولہ کی دو لائنیں کا شت کریں۔سست تیلے کا حملہ سرسوں کی فصل پر پہلے ہوتا ہے اور فائدہ مند کیڑے بھی اس پر پہلے پیدا ہوتے ہیں۔جس وقت گندم پر سست تیلے کا حملہ شروع ہوتا ہے تو یہ اس پر منتقل ہو جاتے ہیں اور چند ہی دنوں میں سست تیلے کو کھا کر کنٹرول کر لیتے ہیں۔سرسوں پر حملہ کرنے والا تیلہ گندم کی فصل پراور گندم پر حملہ کرنے والا تیلہ سرسوں  پر حملہ آور نہیں ہوتا۔لیکن دونوں فصلوں پر پائے جانے والے مفید کیڑے ہر طرح کے سست تیلے کو کھاتے ہیں اور کامیابی سے کنٹرول کرتے ہیں۔اس کے علاوہ سرسوں کی پیداوار سے اضافی آمدن بھی حاصل ہوگی۔ کھادوں کا متناسب استعمال کیاجائے تو بھی سست تیلے کے حملہ کو کم کیا جا سکتا ہے۔

 صحرائی ٹڈی دل کا تدارک

صحرائی ٹڈی دل جب پونگ کی حالت میں ہو تو آسانی سے کنڑول کی جاسکتی ہے جبکہ بالغ پردار کو کنڑول کرنا قدرے مشکل ہے۔ اس کے انسداد کے  طریقے مندرجہ ذیل ہیں۔

طبعی انسداد:

  • اس کے انڈوں والی جگہوں کی نشاندہی کرکے ان کی تھیلیوں کو کھرپے کی مدد سے زمین کھود کر یاہل چلا کر پرندوں اور کیڑوں کے کھانے کے لیے چھوڑ دیں۔
  • زمین میں مکڑی کے انڈوں کی نشان دہی ہو تے ہی جہاں سوراخ نظر آئیں ان کے اردگرد دو تا تین فٹ گہری اور چوڑی کھائی(Trench) کھود کران میں جمع ہونے والے بچوں کو مٹی میں دفن کر دیں یا محکمہ زراعت کی طرف سے سفارش کر دہ زہرکا دھوڑا کریں۔
  • دھواں کر کے، ڈھول بجا کر یا پٹاخے چلاکر ٹڈی دل کے لشکرکو فصلوں پر  بیٹھنے سے روکیں۔
  • آگ کے شعلے پھینکنے والی مشین (Flame Thrower) سے ٹڈی دل کے اڑتے ہو ئے جھنڈ پر شعلے برسائیں۔
  • زمین پر بیٹھی ہوئی صحرائی ٹڈی دل کے جھنڈ کو مارنے کے لیے سہاگہ چلائیں یا بھیڑبکر یوں کے ریوڑ چھوڑیں۔

حیاتیاتی انسداد:

  • تلیر، مینااور کوے صحرائی ٹڈی دل کا شکار کرکے انکی تعداد میں کمی کرنے میں معاون ثابت ہو تے ہیں۔
  • زمینی اور بلسڑ بھونڈی  کے بالغ فائدہ مند کیڑے ہیں اور صحرائی  ٹڈی دل کو کھاتے  ہیں۔

کیمیائی  انسداد:

  • ٹڈی دل کے جھنڈ کے حملہ کی نشان دہی بذریعہ نمبردار یا پٹواری مقامی انتظامیہ یا زرعی ماہرین کو کریں۔
  • مغرب کے بعد درختوں اور زمین پربیٹھے ہوئے ٹڈی دل کے جھنڈ کی نشان دہی کریں اور اگلی صبح سورج نکلنے سے پہلے سفارش کردہ زہر سپرے کریں۔
  • کار برل85 ڈبلیوپی کو چوکر یا گندم کے بھوسے میں 1:25 کے تناسب سے ملا کر زہر یلا طعمہ  (Bait) تیار کر کے لشکر میں بکھیریں۔
  • صحرائی ٹڈی دل کے کیمیائی طریقہ انسداد کے لیے درج ذیل زہرکا نیپ سیک پاورسپرے مشین اور درختوں ا ور فصلوں پر ٹریکڑ پر نصب شدہ مشین سے سپرے کریں۔
سفارش کردہ زہر مقدار
لیمڈاسائی ہیلو تھرین  2.5 ای سی 3 ملی لٹر فی لٹر پانی
ڈیلٹا میتھر ین 2.5 ای سی  3 ملی لٹر فی لٹر پانی
کلوروپائری فاس   10 ملی لٹر فی لٹر پانی
میلاتھیان  5 ملی لٹر فی لٹر پانی

 

جڑی بوٹیوں کی روک تھام

جڑی بوٹیوں کا کنٹرول

بارانی  علاقوں میں خریف میں  فصلات کاشت کرنے سے زمین کی زرخیزی اور نمی محفوظ رکھنے کی استطاعت بڑ ھانے کے ساتھ جڑی بوٹیوں کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد ملتی ہے جس سے گندم کی  پیدا وار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

جڑی بوٹیوں کی تلفی

گندم کی زیادہ اور معیاری پیداوار حاصل کرنے کے لئے جڑی بوٹیوں کی تلفی انتہائی ضروری ہے۔ جڑی بوٹیوں کی تلفی مندرجہ ذیل طریقوں سے کی جا سکتی ہے۔

الف۔ غیر کیمیائی انسداد 

  1. فصلوں کا ادل بدل کریں اور گندم والے کھیتوں میں دو تا تین سال بعد چارہ برسیم وغیرہ کاشت کریں۔
  2. اگر ممکن ہوتو  پہلے پانی کے بعد وتر آنے پر دوہری بارہیرو چلائی جائے۔اس سے جڑی بوٹیاں بہت حد تک تلف ہو جاتی ہیں اور زمین میں وتر دیر تک قائم رہتا ہے۔
  3. فصل کے اگاؤ کے بعد کھرپے یا کسولے سے خشک گوڈی کرکے فصل کو جڑی بوٹیوں سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ یہ عمل کافی مو ثر ہے بشرطیکہ کاشتکار کے پاس افرادی قوت ہو۔

ب۔ کیمیائی انسداد

محکمہ زراعت توسیع یا پیسٹ وارننگ کے عملہ کے مشورہ سے سفارش کردہ جڑی بوٹی مار زہروں کا استعمال اور  درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیارکریں۔

  • چوڑے اور نوکیلے پتوں والی جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے صرف مخصوص سفارش کردہ زہر استعمال کریں۔
  • ریتلے اور کلراٹھے علاقوں میں ان زہروں کا استعمال احتیاط سے کریں۔
  • زہر کے چھڑکاؤ کے بعد گوڈی یا بار ہیرو کے استعمال سے پرہیز کریں۔
  • سپرے کے بعد جڑی بوٹیوں کو چارہ کے طور پر ہرگز استعمال نہ کریں۔
  • کسی جگہ دوہری سپرے نہ کریں اور نہ ہی کوئی جگہ خالی رہنے دیں۔
  • معیاری سپرے کے لئے مخصوص نوزل (Flat Fan  یا   T.Jet) استعمال کریں.
  • تیز ہوا، دھند یا بارش میں سپرے نہ کریں۔ ترجیحاً سپرے دھوپ میں کریں۔
  • پانی کی مقدار فی ایکڑ 100 تا 120 لٹر رکھیں۔
  • سپرے ہمیشہ مشین کی کیلی بریشن کر کے کریں۔
  • دھان کے علاقے جہاں پہلے پانی کے بعد زمین دیر سے وتر آتی ہے  وہاں پانی لگانے کے بعد جب کھیت میں کیچڑ ہو تو جڑی بوٹی مار زہر یں یوریا کھاد یا ریت میں ملا کر بذریعہ چھٹہ استعمال کی جا سکتی ہیں۔

سپرے مشین کی کیلی بریشن

سپرے مشین کو مقررہ حد تک پانی سے بھر لیں اوراس کا فصل پر اس طرح سپرے کریں گویا آپ زہر کا سپرے کر رہے ہیں۔ جب مشین میں موجود پانی ختم ہو جائے تو سپرے شدہ فصل کا رقبہ معلوم کر لیں۔ فرض کریں یہ رقبہ ایک ایکڑ کا  آٹھواں حصہ بنتا ہے۔ لہٰذا ایک ایکڑ فصل کو سپرے کرنے کے لئے آٹھ ٹینکی پانی درکار ہو گا۔ مذکورہ ایک ایکڑ رقبہ پر سپرے کرنے کے لئے زہر کی سفارش کردہ فی ایکڑ مقدار کو آٹھٍ حصوں میں برابر تقسیم کر کے ایک حصہ فی ٹینکی پانی میں ملائیں۔

آبپاشی

آبپاشی

مختلف فصلوں کے بعد کاشتہ گندم کو درج  ذیل ترکیب کارکے مطابق آبپاشی کریں۔

الف۔ کپاس، مکئی اور کماد کے بعد کاشتہ گندم

پہلا پانی: شگوفے نکلتے وقت یعنی بوا ئی کے 20 تا 25 دن بعد۔ (اوپر کی جڑیں نکلتے وقت)

اس مرحلے پر پانی کی اشدضرورت ہوتی ہے ا ور پانی دیرسے لگانے کی صورت میں پودا شگوفے کم بناتا ہے اور فی پودا سٹوں کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔

دوسرا پانی: بوائی کے 80 تا 90 دن بعد (گوبھ کے وقت)

اس وقت سٹہ  بن رہا ہوتا ہے اور باہر نکلنے کے مراحل میں ہوتا ہے۔ اگر اس مرحلے پر پانی نہ دیا جائے یا تاخیر سے دیا جائے تو سٹے چھوٹے رہ جاتے ہیں اور ان میں دانوں کی تعداد کم رہ جاتی  ہے اور پیداوار میں کمی واقع ہوجا تی ہے۔

تیسرا پانی:دانہ بننے کی ابتدا  یعنی  بوائی کے 125 تا 130 دن بعد۔(دودھیا حالت)

یہ سٹے میں دانہ بننے اور بھرنے کا وقت ہے۔ اگر اس مرحلے پر پانی نہ دیا جائے یا تاخیر سے دیا جائے تو دانے کا سائز چھوٹا رہ جاتا ہے اور پیداوار میں کمی واقع ہوجا تی ہے۔

ب۔ دھان کے بعدکاشتہ گندم

پہلا پانی:بوائی کے 35 تا 45 دن بعد 

دھان کے وڈھ میں چونکہ وتر زیادہ ہوتا ہے اس لئے پہلا پانی قدرے تاخیر سے لگایا جائے تاکہ زمین نرم رہے، پودے کی جڑوں کو ہوا کی مناسب فراہمی جاری رہے اور پودا زیادہ جڑیں اور شگوفے بنا سکے۔

دوسرا پانی:بوائی کے 80 تا 90 دن بعد (گوبھ کے وقت)

تیسرا پانی:دانہ بننے کی ابتدایعنی  بوائی کے 125 تا 130 دن بعد(دودھیا حالت)

ج ۔پچھیتی کاشتہ فصل کو آبپاشی

پہلا پانی: شاخیں نکلتے وقت (بوائی کے 25تا 30دن بعد)

دوسرا پانی:گوبھ کے وقت (بوائی کے 70تا 80دن بعد)

تیسرا پانی:    دانے بننے کی ابتدائی حالت (بوائی کے110تا115دن بعد)(دودھیا حالت)

آبپاشی سے متعلق ضروری ہدایات

  • اگر موسم متواترگرم اور خشک رہے تو دوسرے اور تیسرے پانی کے درمیانی وقفہ میں ضرورت کے مطابق ایک زائد پانی لگائیں۔
  • زمین کی ساخت اور موسمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پانی لگانے کے وقت میں رد و بدل کیا جا سکتا ہے۔
  • 25  مارچ تک آخری آبپاشی مکمل کر لیں تا ہم پچھییتی فصل کو پانی اس کے بعد تک بھی لگایا جا سکتا  ہے۔
  • تمام علاقوں میں عموما ً اور دھان والے علاقوں میں خصوصاً گندم کے کھیتوں میں کیارے چھوٹے بنائیں تا کہ آبپاشی مناسب مقدار میں ہو سکے اور پانی کی بچت کے سا تھ فصل بھی خوشحال رہے۔
  • ریتلی زمین میں ضرورت کے مطابق زائد پانی لگایا جا سکتا ہے۔

کھادیں

گندم کے لئے کھادوں کی سفارشات

اچھی پیداوار کے حصول کے لئے سفارش کردہ کھادوں کا استعمال زمین کے لیبارٹری تجزیہ کی روشنی میں کریں۔ کھادوں کی مقدار کا صحیح تعین کرنے میں زمین کی بنیادی زرخیزی، زمین کا کلراٹھا پن، اس کی قسم اور نوعیت، دستیاب نہری یا ٹیوب ویل کے پانی کی مقدار اور حالت، مختلف فصلوں کی کثرت کاشت اور پچھلی فصل وغیرہ کو مد نظر رکھیں۔ پنجاب کے تقریباً تمام اضلاع میں تجزیہ گاہیں موجودہیں جہاں سے کسان بھائی زمین اور ٹیوب ویل کے پانی کا تجزیہ کروا سکتے ہیں۔

زمینی تجزیہ نہ ہونے کی صورت میں کیمیائی کھادوں کی سفارشات گوشوارہ نمبر 3 اور 4 میں دی گئی ہیں۔(یہ سفارشات سوائل فرٹیلٹی ریسرچ انسٹیٹیوٹ،لاہور کی فراہم کردہ ہیں)۔

گوشوارہ:نمبر3:   آبپاش علاقوں میں کھادوں کی سفارشات

نوعیت زرخیزی زمین نائٹروجن( کلوگرام فی ایکڑ ) فاسفورس( کلوگرام فی ایکڑ ) پوٹاش( کلوگرام فی ایکڑ ) کھاد کی مقدار (بوریوں میں)فی ایکڑ

کمزور زمین
نامیاتی مادہ 0.86% تک

فاسفورس7 پی پی ایم تک

پوٹاش80 پی پی ایم تک

64 46 25 دو بوری ڈی اے پی + دو بوری یوریا +
ایک بوری  ایس او پی

اوسط زرخیز زمین
نامیاتی مادہ0.86%تا 1.29%
فاسفورس7 تا 14 پی پی ایم 
پوٹاش 80 تا 180 پی پی ایم

54 34 25 ڈیڑھ بوری ڈی اے پی + پونے دو بوری یوریا + ایک بوری   ایس او پی
زرخیز زمین
نامیاتی مادہ 1.29% سے زائد
فاسفورس 14 پی پی ایم سے زائد
پوٹاش 180 پی پی ایم سے زائد
46 30 25 سوابوری ڈی اے پی + ڈیڑھ بوری یوریا + ایک بوری   ایس او پی

گوشوارہ نمبر4:  بارانی علاقوں میں کھادوں کی سفارشات

سالانہ بارش نائٹروجن( کلوگرام فی ایکڑ ) فاسفورس( کلوگرام فی ایکڑ ) پوٹاش( کلوگرام فی ایکڑ ) کھادکی مقدار (بوریوں میں)  فی ایکڑ
کم بارش کا علاقہ  
(سالانہ بارش 350 ملی میٹر تک) راجن پور، لیہ، دیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، بھکر، میانوالی اور خوشاب کے بارانی علاقے  جنڈ، پنڈی گھیپ
34 23 12  ایک بوری ڈی ا  ے پی   + ایک بوری یوریا  +  
آدھی بوری ایس او  پی
درمیانی بارش کا علاقہ
(سالاہ بارش 350سے600ملی میٹر تک) چکوال، تلہ گنک اور پنڈدادن خان کے علاقہ جات
40 28 12 سوا بوری ڈی اے پی+  سوا بوری یوریا +  آدھی بوری ایس او  پی
زیادہ بارش کا علاقہ 
(600ملی میٹر سے زیادہ) راولپنڈی، اٹک، جہلم، سوہاوہ، نارووال، گجرات، کھاریاں، اور شکر گڑھ کے علاقہ جات
48 34 25 ڈیڑھ بوری ڈی اے پی + ڈیڑھ بوری یوریا +
ایک بوری ایس او

کھادوں کے استعمال سے متعلق ہدایات

  • بوائی کے وقت فاسفورسی اور پوٹاش کی کھاد کا استعمال بینڈ پلیسمنٹ ڈرل کے ذریعہ کریں۔
  • نائٹروجنی کھاد 2 یا 3 برابر اقساط میں استعمال کریں۔
  • ریتلے علاقوں میں نائٹروجنی کھاد چار برابر اقساط میں ڈالیں کیونکہ ایسی زمینوں میں نائٹروجنی کھاد کے ضائع ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔
  • کمزور زمینوں میں فصل کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے آدھی بوری یوریا فی ایکڑمزید ڈالیں۔
  • پچھیتی کاشت کی صورت میں کھاد کی پوری مقدار کاشت کے وقت ہی ڈال دیں۔
  • آلو کی فصل کے بعد کھادزمین کی زرخیزی کے مطابق ڈالیں۔
  • شور زدہ / کلراٹھی زمینوں میں کیمیائی تجزیہ کے مطابق مون سون سے پہلے جپسم استعمال کریں۔
  • اگر کسی وجہ سے فاسفورسی کھاد بوقت کاشت نہ ڈالی جا سکے تو پہلے پانی کے ساتھ ڈال دیں۔
  • ترقی پسند کاشتکار 2بوری ڈی اے پی فی ایکڑ استعمال کریں۔

گوشوارہ نمبر5:    مختلف کھادوں میں خوراکی اجزاء کی مقدار

خوراکی اجزاء کی سفارش کردہ مقدارحاصل کرنے کے لیے متبادل دوسری کھادیں بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔اس کے لیے مندرجہ ذیل گوشوارہ سے مدد لی جا سکتی ہے۔

نام کھاد وزن بوری کلو گرام غذائی اجزاء(فیصد) نائٹروجن N غذائی اجزاء(فیصد) فاسفورس P2O5 غذائی اجزاء(فیصد) پوٹاش K2O غذائی اجزاء کلوگرام فی بوری (50 کلو گرام) نائٹروجن 
N
غذائی اجزاء کلوگرام فی بوری (50 کلو گرام) فاسفورس
P2O5
غذائی اجزاء کلوگرام فی بوری
 (50 کلو گرام) پوٹاش
K2O
یوریا 50 46 - - 23 - -
نائٹروفاس 50 22 20 - 11 10 -
کیلشیم امونیم نائٹریٹ (CAN) 50 26 - - 13 - -
سنگل سپر فاسفیٹ SSP) 18%) 50 - 18 - - 9 -
سنگل سپر فاسفیٹSSP) 14%) 50 - 14 - - 7 -
ٹرپل سپرفاسفیٹ(ٹی ایس پی) 50 - 46 - - 23 -
ڈائی امونیم فاسفیٹ(ڈی اے پی) 50 18 46 - 9 23 -
مونو امونیم فاسفیٹ (ایم اے پی) 45.5 16 52 - 8 23 -
پوٹاشیم سلفیٹ(ایس او پی) 50 - - 50 - - 25
پوٹاشیم کلورائیڈ(ایم او پی) 50 - - 60 - - 30

گندم میں زنک اور بوران کا استعمال

گندم کی فصل کے لئے زنک سلفیٹ(ZnSO4) 33فیصدبحساب6کلو گرام اور بورک ایسڈ 17فیصدبحساب2.50کلو گرام فی ایکڑ بوائی کے وقت استعمال کرنے سے پیداوار پر اچھے اثر ات مرتب ہوتے ہیں۔اگر سابقہ فصل میں زنک سلفیٹ استعمال کی گئی ہو تو گندم میں نہ کریں۔

دیسی و سبز کھاد کا استعمال

ہماری زمینوں میں نامیاتی مادہ کی مقدار کافی کم ہے۔اس لئیزمین کی بنیادی زرخیزی اور طبعی حالت کوبرقرار رکھنے کے لئے دیسی و سبز کھاد کا استعمال بہت ضروری ہے۔ گوبر کی گلی سڑی کھادبحساب 8تا10ٹن)تین سے چار ٹرالی(فی ایکڑ  استعمال کریں یا پھر گندم کی فصل سے قبل گوارہ، جنتر یا دیگر پھلی دار اجنا س کاشت کریں اور پھول آنے پر بطور سبز کھاد زمین میں دبا دیں۔خیال رہے کہ یہ عمل گندم کی بوائی سے دو ماہ قبل کریں اور ہر دو تین سال بعد ضرور دہرائیں۔

کٹائی

برداشت (کٹائی و گہائی)

  • فصل کی برداشت پوری طرح پکنے پر کریں۔
  • فصل کی بروقت سنبھال کے لئے کٹائی گہائی سے پہلے ہی مزدوروں، تھریشر،ٹریکٹر، ٹرالی، ترپالوں یا پلاسٹک کی چادروں اور کمبائن ہارویسٹر وغیرہ کا انتظام کر لینا چاہئے۔
  • بارش کے دوران فصل کی برداشت بند کر دیں اور موسم بہتر ہونے تک بند رکھیں۔
  • بھریاں قدرے چھوٹی باندھیں اور سٹوں کا رخ ایک ہی طرف رکھیں۔
  • کھلواڑے چھوٹے رکھیں اور اونچے کھیتوں میں لگائیں۔
  • کھلواڑوں کے ارگردپانی کے نکاس کے لئے کھائی بنائیں۔
  • فصل کمبائن ہارویسٹر سے برداشت کرنے کی صورت میں ضرورت کے تحت مشین یعنی(Wheat Straw Chopper) کی مدد سے توڑی بنائیں۔
  • فصل کی باقیات کو ہر گز نہ جلائیں۔

ذخائر

گندم کو سٹور کرنا

غلہ کو ذخیرہ کرتے وقت ضائع ہونے سے بچانے کے لئے مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیراختیارکرنی چاہئیں۔

گہائی:  گندم کی تھریشنگ کرتے وقت یہ خیال رکھا جائے کہ دانے ٹوٹنے نہ پائیں کیونکہ ٹوٹے ہوئے دانوں پر کیڑوں کا حملہ جلد اور زیادہ ہوتا ہے۔

نمی: غلہ کو گوداموں میں رکھتے وقت اس میں نمی تقریباً 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ دانے کو دانت کے نیچے دبانے سے اگرکڑک کی آوازسے ٹوٹے تو نمی کی مقدار مناسب ہے۔اگر نمی زیادہ ہو تو جنس کو دھوپ میں سکھا لیں۔

غلہ کو بوریوں میں بھرنا

غلہ کو ذخیرہ کرنے کے لئے نئی بوریاں استعمال کرنی چاہئیں۔ بصورت دیگر پرانی بوریوں کو محکمہ زراعت کے عملہ کے مشورہ سے سفارش کردہ  زہرکے محلول سے اچھی طرح سپرے کرنے کے بعد خشک کرکے گندم سے بھریں اور پھر گو داموں میں ذخیرہ کریں۔اگر ممکن ہو تو گندم ذخیرہ کرنے کے لیے ہرمیٹک تھیلے (Hermatic bags)استعمال کریں۔

گوداموں کو صاف کرنا

گوداموں میں اگر کوئی دراڑیں وغیرہ ہوں تو وہاں مٹی یا سیمنٹ لگا کر اچھی طرح بند کر دیا جائے۔ پھرمحکمہ زراعت کے عملہ کے مشورہ سے مناسب زہر کا سپرے کریں۔ اس عمل کے بعد گوداموں کو کم از کم 48 گھنٹے بند رکھنے کے بعد ان کے دروازے کھول دیئے جائیں۔ اس کے بعد 4 تا  6 گھنٹے تک گوداموں میں دا خل نہ ہوں اوران کی اچھی طرح صفائی کریں۔

فیومیگیشن (Fumigation)

اگر گوداموں میں چوہوں اور کیڑے مکوڑوں کا حملہ ہو جائے تو اس کے انسداد کے لئے ایلومینیم فاسفائیڈ کی 30تا35گولیاں فی ہزارمکعب فٹ  استعمال کریں۔ اگر جنس کھلی پڑی ہوئی ہو تو اس کو پلاسٹک شیٹ سے اچھی طرح ہوا بند کر لیں۔گوداموں کی سال میں دو مرتبہ فیومیگیشن کریں۔ایک غلہ ذخیرہ کرتے وقت اور دوسرا  موسم برسات میں نمی بڑھنے پر۔فیومیگیشن  کے دوران گودام بالکل ہوا بند ہونے چاہئیں بصورت دیگر زہریلی گیس کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔گودام کو کم از کم سات یوم کے لئے بند رکھیں۔گودام کھولنے کے 4 تا 6 گھنٹے بعد اندر داخل ہوں۔ فیومیگیشن کے لئے زہر کی گولیاں کسی کپڑے وغیرہ میں باندھ کر رکھیں اور بعد میں ان کی راکھ کو تلف کر دیں اور جنس میں نہ جانے دیں۔

غلہ کی چوہوں سے حفاظت

چوہوں سے حفاظت کے لئے موزوں زہر کی گولیاں بنا کر رات کے وقت چوہوں کی گزرگاہ پر رکھیں تو یہ ان کو کھا کر مر جاتے ہیں۔

رانا جاوید کولڈ اسٹوریج
اراضی یعقوب شاہ ساہیوال

Crop Calendar

فصل کا منصوبہ

پیداواری منصوبہ برائے گندم  2020-21



فصل کا منصوبہ ڈاؤن لوڈ کریں