کینو
nil
فصل کے بارے
4ترشاوہ پھل:
دنیا میں ترشاوہ پھلوں کی ترویج و ترقی میں ان کی طبی و غذائی اہمیت کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ یہ پھل اپنے اندر حیاتین کی بہت سی اقسام رکھتے ہیں جن میں حیاتین ”ج“ اور ”ب“قابلِ ذکر ہیں۔ گریپ فروٹ ہائی بلڈ پریشر، یرقان اور کولیسٹرول کم کرنے میں مفید ثابت ہوچکا ہے۔ ۔پاکستان سے ترشاوہ ہر سال مختلف ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔پاکستان سے سالانہ تقریباً 450لاکھ ٹن ترشاوہ پھل برآمدکیا جاتا ہے جس سے30 ارب روپے سے زیادہ کا زرمبادلہ حاصل کیا جاتاہے۔ پاکستان میں ترشاوہ پھل کی پیداوار اور کوالٹی میں اضافہ کی خاطر خواہ گنجائش موجود ہے لہٰذا اس کی برآمد کی مقدار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ ضلع سرگودھا میں 200سے زائد ترشاوہ پھلوں کے پراسیسنگ یونٹ (Processing Unit) کام کررہے ہیں جن میں سے بیشتر ٹوبہ ٹیک سنگھ اور لیہ میں ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ترشاوہ پھلوں کی پیداوار اور کوالٹی کو بہتر بنانے کی طرف خصوصی توجہ دی جائے جس کیلئے باغبانوں کو ترشاوہ پھلوں کیپیداواری ٹیکنالوجی سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ضروری ہے۔
سنگترے (Mandarin/Tangerine)کی اقسام:
پنجاب میں 80فیصد سے زیادہ رقبہ اس گروپ کی کاشت پر مشتمل ہے اس کی کاشتہ اقسام میں کنو اور نیوٹرل ارلی قابل ذکر ہیں۔ گزشتہ سالوں میں سٹرس ریسرچ انسٹیٹیوٹ سرگودھا نے دواقسام متعارف کروائی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
مینڈرین کی اقسام:
بغیر بیج کنو /کم بیج والا کنو: (Seedless/Low-seeded Kinnow)
سٹرس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے 2تا5بیج کا حامل کنو تیار کر لیا ہے اور بہت ہی کم ایسے پودے ہیں جن میں بیجوں کی تعداد 5تک ہے ادارہ ہذاہر سال اس قسم کے پودے تیار کررہا ہے اور خواہشمند کاشتکاران کو تقسیم کر رہا ہے تاکہ پھل کی کوالٹی بہتر بناکرہم مستقبل قریب میں نئی اور بین الاقوامی منڈیوں تک اپنی رسائی حاصل کر سکیں۔
ہنی مینڈرین :(Honey Mandarin)
ہنی مینڈرین بہت اچھی مٹھاس رکھنے والی سنگترے کی قسم ہے یہ تسلسل کے ساتھ بار آورہوتی ہے اور اس کاشمار اچھی پیداوار دینے والے سنگتروں میں ہوتا ہے۔ اس کا پھل سائز میں کنو سے ذرا چھوٹا مگر نہایت خوش ذائقہ اور رسدار ہے۔ اکتوبر اور نومبر کے آغاز میں ہی تیار ہو جاتا ہے یہ گرم علاقوں میں کامیابی سے کاشت کی جا سکتی ہے۔
ٹینجرین(Tangerine)کی اقسام:
ٹینجرین دراصل مینڈرین کی چھوٹے سائز، گہرے رنگ اور زیادہ مٹھاس والی قسمیں ہیں۔ ہماری سفارش کردہ ٹینجرین کی اقسام درج ذیل ہیں
فئیر چائلڈ: (Fair Child)
یہ قسم کلیمنٹائن اور آرلینڈو ٹینجلو کے اختلاط سے معرض وجود میں آئی اور اس قسم کو کیلیفورنیا کے محکمہ زراعت نے 1964 میں تجارتی کاشت کیلئے متعار ف کر وایا پھل کی شکل قدرے چپٹی اور سائز درمیانہ ہوتا ہے چھلکا درمیانہ سے موٹا اور گہرے سرخ رنگ کا ہوتا ہے اس کی جلد اوپر سے بالکل صاف ہوتی ہے گودا نارنجی رنگ کا گھلنے والا رس دار میٹھا اور خوشبودار ہوتا ہے بہتر پیداواری صلاحیت کی حامل یہ قسم دسمبر کے اوائل میں تیارہو جاتی ہے۔ پنجاب کے شمالی علاقہ جات اور وسطی پنجاب میں نہایت کامیابی سے کاشت ہو سکتی ہے۔
فری مونٹ :(Fremont)
یہ قسم کلیمنٹائن اورپونکن سنگترے کے اختلاط سے پیدا کی گئی ہے۔ 1964 میں محکمہ زراعت فلوریڈا، امریکہ نے تجارتی کاشت کیلئے اس قسم کو متعارف کروایا۔ا س قسم نے چکوال کے علاقے میں بہتر کار کر دگی دکھائی ہے۔ یہ قسم شروع دسمبر میں پک جاتی ہے۔ پھل کی شکل چپٹی سائز درمیانے سے چھوٹا،چھلکا درمیانہ سے موٹا گہرانارنجی مائل سرخ اور صاف ہوتا ہے۔ اس کا گودا گھلنے والا رس دار اور بہت خوشبودار ہوتا ہے قابلِ تحلیل ٹھوس مادے کی مقدار 11فیصد اور تیزابیت 1.13 فیصد ہوتی ہے۔
بیج
ترشاوہ پودوں کی افزائش نسل کے لیے درج ذیل عوامل کو ملحوظ رکھا جائے۔
مناسب روٹ سٹاک کا استعمال:
پیوندی پودا عموماً دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک وہ حصہ جس کا براہ راست تعلق زمین سے ہو اور اپنی جڑوں کے نظام سے پودے کو زمین سے پانی اور دیگر غذائی عناصر مہیا کرے، اسے روٹ سٹاک (Rootstock) کہتے ہیں۔ دوسرا حصہ وہ ہے جو کہ روٹ سٹاک پر پیوند کیا جاتا ہے۔ اسے سائن (Scion)کہتے ہیں۔ ترشاوہ پھلوں میں روٹ سٹاک کو بہت اہمیت حاصل ہے، موزوں روٹ سٹاک پر پیوند شدہ پودے زمین اور علاقے کی آب و ہوا سے مطابقت رکھنے کے علاوہ وائرسی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت رکھتے ہیں۔ اچھی پیداوار اور بہتر کوالٹی کا پھل مناسب روٹ سٹاک کے استعمال سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
روٹ سٹاک کے بیج کا حصول اور تیاری:
جن پودوں سے روٹ سٹاک کے لیے بیج درکار ہو ان کا پھل جب برداشت کے قریب ہو تو اسے توڑ کر کسی خاص جگہ پر اکٹھا کر لیں اور چند روز تک اسے پڑا رہنے دیں تاکہ پھل کچھ نرم ہو جائے۔ بیج نکالنے کے لیے تیز چاقو سے پھل کی گولائی کے درمیانی حصہ سے اس طرح کٹ لگائیں کہ چاقو پھل کے چھلکے تک ہی محدود رہے۔ اس کے بعد پھل کو گھما کر دو حصوں میں تقسیم کر کے اس کے گودے سے بیج نکال لیں۔ اس کے بعد بیج کو دو حصے بھل اور ایک حصہ ریت کے آمیزہ میں اچھی طرح رگڑیں تاکہ بیج کے اوپر سے تمام کھٹاس اور دیگر مادے جو بیج کی روئیدگی میں رکاوٹ بنتے ہیں ختم ہو جائیں۔ اس کے بعد بیج کو پانی میں اچھی طرح دھو لیں جو بیج پانی میں تیرتے نظر آئیں انہیں ضائع کر دیں کیونکہ ان میں روئیدگی کی صلاحیت نہیں رہتی۔ اس کے بعد بیج کو صاف کاغذ یا کپڑے پر پھیلا کر ایک دو دن سایہ دار جگہ پر رکھ کر خشک کریں۔
بیج کو بونے سے پہلے پھپھوندی کش زہریں، تھائیو فینٹ میتھائل یا کوئی اور مناسب پھپھوندی کش دوا ضرور لگائیں۔ بیج کی بوائی کے وقت اگر یہ زہریں نہ لگائی جائیں تو نرسری ابتدائی مراحل میں ہی مختلف بیماریوں کا شکار ہو سکتی ہے۔ بیج بونے کا بہترین وقت اگست، ستمبر ہے تاہم فروری، مارچ میں بھی بیج کاشت کیا جا سکتا ہے۔جب روٹ سٹاک کے پودوں کی عمر 6تا 9 ماہ ہوجائے توانہیں اچھی طرح تیار شدہ زمین میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ جب ان پودوں کی عمر ایک سال ہوجائے یا اس کی موٹائی پنسل جتنی ہوجائے تو ترشاوہ پھلوں کی مطلوبہ اقسام ان پر بذریعہ سائیڈ گرافٹنگ یا ٹی بڈنگ اگست ستمبر یا مارچ اپریل میں پیوند کر دی جاتی ہیں۔ بیج بونے سے عمل پیوند کاری تک کے مراحل میں درج ذیل باتوں کا خاص خیال رکھا جائے تو بہتر پودے تیار کیے جاسکتے ہیں۔
-
روٹ سٹاک کا بیج تندرست، صحت مند اور بیماریوں سے پاک پودوں سے حاصل کیا جائے اور زمین پر گرے ہوئے پھل اس مقصد کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔
-
روٹ سٹاک کے بیج کو 52ڈگری سینٹی گریڈ پر 10منٹ کیلئے پانی میں رکھیں اور بونے سے پہلے پھپھوند کش زہریں ضرور لگائیں۔
-
عمل پیوند کاری کیلئے استعمال ہونے والے چاقو کو صاف کرکے پھپھوند کش زہر کے محلول میں ڈبو کر استعمال کریں تاکہ بیماری بذریعہ چاقو دوسرے پودوں میں منتقل نہ ہو سکے کیونکہ وائرسی بیماریاں پیوند کاری کے عمل سے ہی بیمار پودوں سے تندرست پودوں میں منتقل ہوتی ہیں۔
-
پیوند کاری سطح زمین سے روٹ سٹاک پر 6 تا 9 انچ کی بلندی پر کریں بصورت دیگر پودے فٹ راٹFoot rot) (جیسی بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔
-
ترشاوہ نرسری لگانے کیلئے ایسی جگہ کا انتخاب کریں جہاں پہلے سے کم از کم ایک سال نرسری نہ لگائی گئی ہو اور زمین کا نکاسی آب کا نظام بہترین ہوا اور مزید یہ کہ باغ سے دور ہو۔
کاشت
ترشاوہ پھلوں کیلئے مناسب زمین اور آب و ہوا:
سطح سمندر سے تقریباً 2500 فٹ سے بھی زیادہ بلندی تک ان پھلوں کی پیداوار ممکن ہے۔ ترشاوہ پھلوں کے لیے موزوں ترین درجہ حرارت 25 ڈگری سینٹی گریڈسے 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہے تاہم یہ 43 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت کو بھی برداشت کر سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ درجہ حر ارت ترشاوہ پھلوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اگر درجہ حرارت 45ڈگری سینٹی گریڈ سے بڑھ جائے تو ان کا پھل جھلساؤ) (Sun burn کا شکار ہو جاتا ہے۔ ترشاوہ پھل ہر اس آب و ہوا میں کامیابی سے کاشت ہو سکتے ہیں جہاں موسم گرما میں درجہ حرارت 43 ڈگری سینٹی گریڈ سے بڑھنے نہ پائے، پھول کھلنے پر بارشیں زیادہ نہ ہوں، سال کے زیادہ تر حصہ میں نمی درمیانے درجہ کی رہے اور ایسے علاقے جہاں دن اور رات کے درجہ حرارت میں زیادہ فرق ہو۔ راتیں ٹھنڈی ہوں ۔ گریپ فروٹ کی مختلف اقسام 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرمی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں
زمین:
ترشاوہ پھلوں کے لیے زمین کا درج ذیل خصوصیات کا حامل ہونا بہت ضروری ہے۔
-
ہلکی میرا زمین جس کی پی ایچ 5.5 تا 7 اور نکاسی آب بہت اچھی ہو۔
-
زمین میں نامیاتی مادہ کم از کم ایک فیصد تک ضرور ہو۔
-
سطح زمین سے پانی کم از کم 8 تا 10 فٹ گہرائی تک ہو کنکر وغیرہ نہ ہوں اور نہ ہی کوئی سخت تہہ "Hard pan" یا کیلشیم کاربونیٹ کی تہہ وغیرہ موجود ہو۔
-
کلراٹھی اور سیم زدہ زمینیں ترشاوہ پھلوں کے لیے موزوں نہیں ہیں اور نہ ہی ایک ہزار پی پی ایم سے زیادہ نمکیات والی زمینوں میں ترشاوہ پھلوں کی کاشت کی جاسکتی ہے۔
باغات میں فصلوں کی کاشت:
-
ترشاوہ باغات میں زمین کی زرخیزی کو کم کرنے والی فصلیں مثلاً کپاس وغیرہ کاشت نہ کریں۔
-
ایسی فصلیں جن کی پانی کی ضروریات زیادہ ہوں مثلاً برسیم، کماد وغیرہ ترشاوہ باغات کے لیے سخت نقصان دہ ہیں۔ ان کی کاشت پودوں کو مستقل طور پر نمی کی حالت میں رکھتی ہے جس سے جڑیں تباہ ہوجاتی ہیں اور پودا انحطاط پذیر ہوجاتا ہے۔
-
چونکہ ترشاوہ پودوں پر رس چوسنے والے کیڑوں کا حملہ شدت سے ہوتا ہے لہٰذا ایسی فصلوں کی کاشت سے پرہیز کیا جائے جن پر یہ کیڑے زیادہ شدت سے حملہ آور ہوں مثلاً کپاس وغیرہ۔
-
باغ لگائے جانے کے ابتدائی چند سالوں کے دوران ربیع اور خریف کی سبزیات بھی کاشت کی جاسکتی ہیں۔
-
موسم ربیع میں مٹر، شلجم، گوبھی وغیرہ کاشت کی جاسکتی ہیں۔ موسم خریف میں ٹنڈا، کریلا، کدو، پیاز وغیرہ کاشت کیے جاسکتے ہیں۔بشرطیہ کہ ان کی آبپاشی علیحدہ کی جائے۔
-
باغات کے ابتدائی چند سالوں میں سفارش کردہ فصلوں کے علاوہ کوئی فصل کاشت نہ کی جائے۔
موزوں جگہ کا انتخاب:
ترشاوہ پھلوں کے باغات لگانے کیلئے موزوں جگہ کا انتخاب کرتے وقت درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
-
ایسی زمین کا انتخاب کریں جس میں پانی کی نکاسی بہت اچھی ہو۔
-
باغ کیلئے تجویز کردہ زمین کا تجزیہ برائے زرخیزی کروائیں۔
-
آبپاشی کیلئے وافر نہری پانی کی فراہمی یقینی بنائیں۔
-
باغ کے مختلف امور کیلئے لیبر کی دستیابی کا جائزہ لیں۔
-
پھل ذخیرہ کرنے کیلئے کولڈ سٹوریج کی سہولیات کی موجودگی کا خیال رکھیں
-
گریڈنگ پلانٹ کی نزدیک ترین سہولیات کی دستیابی کو یقینی بنائیں
پودے لگانے کا موسم :
ترشاوہ پودے لگانے کا بہترین موسم ستمبر اکتوبر ہے اس موسم میں لگائے گئے پودے موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ اور تمازت سے متاثر نہیں ہوتے لہٰذا پودوں کے مرنے کا احتمال بہت کم ہوتا ہے جبکہ موسم بہار میں لگائے گے پودے گرمی کی شدت اور پانی کی کمی کا شکار ہو کر مرجاتے ہیں۔تاہم موزوں پانی کی فراوانی کی صورت میں بہار میں بھی لگائے جاسکتے ہیں۔
زمین کی تیاری:
ترشاوہ پھلدار پودے لگانے کے لیے زمین ہموار ہونا بہت ضروری ہے۔ ناہموار زمین جب اچھی طرح ہموار ہوجائے تو اس میں سبز کھاد بنانے والی فصلیں کاشت کریں اور مون سون سے پہلے ان فصلوں کو بذریعہ روٹا ویٹر یا ڈسک ہل زمین میں دبا دیا جائے۔ یہ فصلیں زمین کی طبعی حالت اور نکاسی آب کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں اور زمین میں نامیاتی مادہ کو بڑھاتی ہیں ان کی وجہ سے پودے زمینی غذائی عناصر کو بہتر طور پر حاصل کرتے ہیں۔
ہوا توڑ باڑیں :
باغ کی داغ بیل سے پہلے ہوا توڑ باڑوں کا لگانا بہت ضروری ہے جس کے لیے ایسے درخت منتخب کیے جائیں جو کہ تیزی سے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور ان کی ٹہنیوں کا پھیلاؤ سطح زمین کے قریب سے ہی شروع ہوجائے۔نیم جنتر اور پہاڑی کیکر کو ہوا توڑ باڑوں کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آم، جامن اور بیر کے پودوں پر بہت سے ضرررساں کیڑوں کا حملہ ہوتا ہے جو ان باغات کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں لہذا ان ضرررساں کیڑوں کے بروقت انسداد کیلئے محکمہ زراعت کے مقامی ماہرین کے مشورہ سے زہروں کا استعمال کیا جائے۔
داغ بیل:
دوسرے پھلدار درختوں کی طرح ترشاوہ باغات کو بھی مناسب داغ بیل کے ذریعے لگانا چاہیے۔ داغ بیل کے لیے درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا اشد ضروری ہے۔
-
داغ بیل مربع نما طریقے سے کی جائے اور پودے سے پودے اور قطار سے قطار کا فاصلہ یکساں رکھا جائے۔
-
اگر کوئی بڑا قطعہ اراضی ہو اور ترشاوہ پھلوں کی مختلف اقسام کاشت کرنا مقصود ہوں تو زمین کو مختلف برابر حصوں میں تقسیم کر لیا جائے۔
-
باغ کی داغ بیل مین روڈ سے شروع کی جائے۔
-
ترشاوہ پھل عموماً 20 فٹ کے فاصلے پر لگائے جاتے ہیں۔ اس طرح ایک ایکڑ میں 108پودے آسانی سے لگ سکتے ہیں۔
-
زرخیز اور اچھی نکاسی آب کی حامل زمینوں میں پودوں کی بڑھوتری زیادہ ہوتی ہے لہٰذا ایسی زمینوں میں پودوں کو سفارش کردہ فاصلہ سے کم پر ہر گز نہ لگایا جائے یعنی ترجیحاَ 20x20 فٹ فاصلہ پر مربع نما طریقہ سے پودوں کو لگائیں۔تا ہم 18x18فٹ کے فاصلہ پر لگائے گئے پودوں کی تعداد 134رہتی ہے اور یہ فاصلہ بھی موزوں ہے باغات کو پانی دینے کے سلسلہ میں جہاں قطرہ قطرہ طریقہ آبپاشی اپنا یا جائے وہاں قطاروں کا درمیانی فاصلہ 20فٹ اور پودوں کا درمیانی فاصلہ15فٹ رکھا جا سکتا ہے اس طریقہ سے فی ایکڑ پودوں کی تعداد 161رہے گی۔ اسی طرح 18x14پر لگانے سے پودوں کی تعداد172فی ایکڑ لگائی جاسکتی ہے۔
گڑھے کھودنا:
باغ کی داغ بیل کرنے کے بعد پودوں کی نشاندہی کی جگہ پر 3x3x3 فٹ کے گڑھے کھودے جائیں۔ اوپر کی ایک فٹ تہہ کی مٹی علیحدہ رکھی جائے اور بقیہ مٹی کو کھیت میں بکھیر دیں۔ گڑھوں کو 2 سے3 ہفتہ تک کھلا چھوڑ دیں تاکہ دھوپ اور ہوا کے گزرنے سے بیماری وغیرہ کے جراثیم غیر موثرہوجائیں۔
گڑھے بھرنا:
پودے لگانے سے پہلے گڑھوں کو اوپر ایک فٹ مٹی کے برابر ایک حصہ بھل اور ایک حصہ گلی سڑی گوبر کی کھاد اچھی طرح ملا کر بھر دیں اور پانی لگادیں تاکہ مٹی اچھی طرح بیٹھ جائے۔ تاہم گڑھے بھرنے سے پہلے ان میں پھپھوند کش دوائی کا اچھی طرح سپرے کر دیا جائے تو پودوں کی جڑیں بیماری سے محفوظ رہیں گی۔
پودے لگانے کا طریقہ:
گڑھے بھرنے کے بعد دوبارہ پودے کی درست نشاندہی کی جگہ پر پودے کی گاچی سے ذرا بڑا گڑھا بنائیں اور پودے کی گاچی کو اس میں سیدھا کھڑا کردیں۔ خیال رہے کہ پودے کی گاچی سطح زمین کے برابر رہے۔ گاچی کے گرد مٹی کو اچھی طرح دبا دیں تاکہ ہوا کا گزر نہ رہے۔ پودا لگانے کے فوراً بعد پانی لگا دیں۔
فی ایکڑپودوں کی تعداد:
ہمارے ہاں روایتی طورپر 22x22فٹ81پودے فی ایکڑ اور بعد ازاں 20x20(108پودے فی ایکڑ) لگانے شروع کر دیئے گئے۔ اب دنیا میں فی ایکڑ پودوں کی کثیر تعداد لگائی جاتی ہے اور پودے کا حجم کم رکھا جاتا ہے تاکہ پھل کے معیار کو برقرار رکھا جاسکے۔ علاوہ ازیں کم حجم کی وجہ سے:
-
تمام کاشتی امور آسانی سے سر انجام دیئے جا سکتے ہیں۔
-
پھل کا معیار بہتر بنانے کے لئے شاخ تراشی سے سپرے کا استعمال آسان ہوجاتا ہے۔
-
پودے سے ہوا اور روشنی کا گزر آسان ہوتا ہے۔
-
فی پودا خوراک و پانی کم اور مناسب استعمال ہوتا ہے۔
-
کثیر تعداد سے پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہو سکتاہے۔
کثیر تعداد میں پودے لگانے کو High Density Plantationکہتے ہیں۔ محکمہ زراعت توسیع اور سٹرس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اشتراک سے مختلف منصوبہ جات کی تکمیل کے بعد کاشتکاران کو پودوں کی کثیر تعداد فی ایکڑ کی سفارش کر دی گئی ہے اور اب کاشتکار 15x15، 8x14 ، 12x12وغیرہ کے فاصلہ پر ترشاوہ باغات لگا رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پودے کا حجم برقرار رکھنے اور خوراک کے استعمال ماہرین کے مشورہ سے کیا جائے۔
پودے لگانے کے بعد احتیاطیں:
پودے لگانے سے پہلے اگر لمبائی زیادہ ہو تو اس کو اوپر سے ایک تہائی تک کاٹا جا سکتا ہے تاکہ جڑوں اور تنے کے درمیان مناسب توازن(Root Shoot Ratio) برقرار رہے اور پودے سے پانی کا کم سے کم ضیاع ہو۔
-
جہاں تیز آندھیاں یا ہوائیں چلنے کا اندیشہ ہو وہاں پودوں کے ساتھ چھڑیاں گاڑھ کر پودوں کو مناسب سہارا دیا جائے۔ پودوں کو ان چھڑیوں سے اس طرح باندھا جائے کہ پودا سیدھا کھڑا رہے اور جھکنے نہ پائے۔
-
پودوں کو زیر مشاہدہ رکھا جائے اور وتر آنے پر پانی لگا دیا جائے۔
-
روٹ سٹاک پر جو بھی پھوٹ آئے اسے فوراً رگڑا جائے تاکہ روٹ سٹاک پر کوئی بڑھوتری نہ ہو سکے۔
-
مون سون کے موسم میں یہ خیال رکھیں کہ اگر پودوں کے نیچے دو ربنے ہوئے ہوں تو ان میں پانی بالکل کھڑا نہ ہو بلکہ اسے نالیاں بنا کر فوراً نکال دیا جائے۔
-
کورے والی راتوں میں آبپاشی کا خاص خیال رکھا جائے۔
-
جہاں دیمک وغیرہ کے آثار نظر آئیں وہاں دیمک کش زہروں مثلاً امیڈاکلو پریڈ یا کلوروپائری فاس کا محلول 10 تا 15 ملی لٹر فی پودا دور میں ڈال کر پودوں کو پانی لگا دیا جائے۔
بیماریاں
ترشاوہ باغات کی اہم بیماریاں اور انسداد:
پھپھوندی کی اہم بیماریاں:
نرسری کا مرجھاؤ (Damping - off):
یہ بیماری دو تین قسم کی پھپھوندی کے حملہ کی وجہ سے ہوتی ہے جو پودوں کی جڑوں اور پتوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔ چھوٹے پودوں کی جڑیں گل جاتی ہیں اور پودے مرجھا جاتے ہیں۔
انسداد: نرسری بیڈ اونچی جگہ پر بنائیں۔ پانی مناسب مقدار میں لگائیں۔ بیج کو گرم پانی میں دس منٹ 52ڈگری سینٹی گریڈ پرا بال کر پھر بوائی کریں۔ بیج کو پھپھوندی کش ادویات لگا کرکاشت کریں۔ شدید حملہ کی صورت میں میٹا لکسل مینکوزیب یافوسٹائل ایلومینیم یا تھائیوفینیٹ میتھائل سپرے کریں۔
گوند نکلنا(Gummosis) :
اس بیماری کی وجہ پھپھوندی ہے۔ یہ بیماری پودے کے تمام حصوں جڑ، تنے شاخیں اور پھل پر حملہ آور ہوتی ہے۔ جڑ پر حملہ کی صورت میں جڑیں گل سڑ جاتی ہیں اور اوپر سے چھلکا الگ ہوجاتا ہے۔ تنے پر حملے کی صورت میں چھال میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں اور چھلکا پھٹ جاتا ہے اور گوند نکلنا شروع ہوجاتی ہے شاخوں پر حملے کی صورت میں گوند نکلتی ہے اور شاخیں سوکھ جاتی ہیں۔ زیادہ بارش کے دنوں میں زمین کے نزدیک والے پھل پر حملہ ہوتا ہے اور پھل گل جاتا ہے اس بیماری کی وجہ سے 20 فیصد پودے نرسری میں ہی مر جاتے ہیں۔
وجوہات:
-
پانی کی زیادتی
-
تنا یا جڑوں کا ہل وغیرہ سے زخمی ہونا
-
پیوندی جوڑ کا زمین کے نزدیک ہونا
انسداد:
-
پودے کو زخمی ہونے سے بچائیں
-
پانی تنے سے 2 تا3فٹ دور رہنا چاہیے۔
-
پیوندی جوڑ زمین میں سے 1فٹ اونچا رکھیں۔
-
میٹالاکسل+مینکوزیب 50تا70گرام فی پودا۔ فروری، مارچ، جولائی اور اگست میں زمین میں پودے کی چھتری کے نیچے ڈالیں۔
-
پھپھوندی کش زہروں فوسٹائل ایلومینیم سپرے کریں۔
سٹرس سکیب (Citrus Scab):
یہ بیماری کنوکے باغات میں پھیلتی جارہی ہیں۔ان کی وجہ سے پتے اور پھل نشان زدہ ہو جاتے ہیں اورپھل کی کوالٹی متاثر ہوتی ہے۔زیرا ستعمال روٹ سٹاک جٹی کھٹی پر اس کا حملہ زیادہ شدید ہوتا ہے۔ شدید حملہ کی صورت میں پتے اور پھل گر جاتے ہیں۔ پھل پر سکیب کے شدید حملہ کی صورت میں چھلکے پر داغ بن جاتے ہیں۔پھل نسبتاً سخت ہو جاتا ہے اور کئی دفعہ گر بھی جاتا ہے۔
بیماری کے اثرات پھل کے چھلکے پر ہوتے ہیں لیکن پھل کا گودا اور جوس وغیرہ پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور قابل استعمال ہوتا ہے۔ بیماری کی پھپھوندیوں کے بیج (سپور) پرانی لکڑی، مردہ ٹہنیوں پر پرورش پاتے ہیں اور پھیلتے رہتے ہیں۔ بیماری درج ذیل ماحول میں بہت زیادہ پھیلتی ہیں۔
-
درجہ حرارت 25یا اس سے زیادہ
-
ہوا میں نمی کا تناسب70-66 فیصد
-
زیادہ حملہ مارچ، اپریل اور جولائی تا ستمبرمیں ہوتا ہے۔
حکمت عملی برائے انسداد سکیب و میلانوز:
-
پھل برداشت کرنے کے فوراً بعد کانٹ چھانٹ کریں۔ پودے پر کوئی سوکھی بیماری سے متاثرہ اور مردہ لکڑی/ٹہنی اور باریک سوکھی شاخیں نہ رہیں
-
کانٹ چھانٹ/شاخ تراشی کے فوراً بعد کاپر والی پھپھوندی کش دوا یا بورڈ مکسچر کا سپرے کریں تاکہ موجود بیماری کے جراثیم ختم ہوں اورآئندہ فصل پر حملہ آور نہ ہوں۔ سپرے کے لئے کم از کم 500-400لٹر پانی فی ایکڑ استعمال کریں
-
باغات میں گرے ہوئے تمام پھل اکٹھا کرکے گڑھا کھود کر دبا دیں اور مٹی کی موٹی تہہ سے ڈھانپ دیں۔
-
پھول کی پتیاں جب 70فیصد سے زیادہ گر جائیں تو درج ذیل سپرے کریں
(i)کاپر ہائیڈرو و آکسائیڈ2.5تا 3گرام فی لکڑی
(ii)بورڈ و مکسچر
(iii)ازاکسی سٹروبن 2ملی لٹر فی لٹر پانی
(iv)ٹرائی فلوکسی سٹروبن60ملی لٹر فی 100لٹر پانی
یاد رہے کہ پودوں کو سپرے سے اچھی طرح دھونا ہے اور کم از کم 400تا500لٹر پانی فی ایکڑ استعمال کریں۔
-
سپرے کے 25دن کے اندر اگر بارش ہوجائے تو یہی سپرے دوبارہ دوھرائیں۔
-
مون سون شروع ہونے سے قبل بورڈ ومکسچر کا سپرے کریں۔
-
اگست۔ستمبر میں تھائیوفینیٹ میتھائل کا سپرے بحساب 2ملی لٹر فی لٹر پانی میں ملا کر سپرے کریں۔
-
پوٹاش کا استعمال بھی کریں تاکہ بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو۔
سرسوک :(Wither Tip)
علامات:
اس بیماری کا سبب پھپھوندی ہے۔ یہ بیماری پتوں، شاخوں اور پھل پر حملہ ہوتی ہے۔ پتوں پر ہلکے سبز رنگ کے دھبے بنتے ہیں جو بعد میں براؤن ہو کر گرجاتے ہیں۔ شاخیں اوپر سے سوکھنا شروع ہوجاتی ہیں اور بیمار شاخوں پر سلور رنگ کی تہہ بن جاتی ہے جن پر سیاہ دھبے نظر آتے ہیں۔ پھل پر حملے کی صورت میں پھل ڈنڈی کی طرف سے گلنا شروع ہوجاتا ہے اور گر جاتا ہے اور بٹن ڈنڈی کے ساتھ رہ جاتاہے۔
وجوہات:
بیمار پتے اور شاخیں اس بیماری کو پھیلانے میں مدد گار ہوتے ہیں۔ مئی تا نومبر جب بارشیں زیادہ ہوں تو یہ بیماری پھیل جاتی ہے۔ زمین میں خوراک کی کمی، ریتلی یا پتھریلی زمین۔ غیر موزوں فصلوں کی باغ میں کاشت بیماری کا سبب بنتی ہے۔ مناسب خوراک، پانی، کانٹ چھانٹ اور سپرے کرنے سے بیماری کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ متاثرہ شاخوں کو کاٹ دیں تھائیو فینیٹ میتھائل 2 گرام فی لٹرپانی، ڈائی فینا کونازول 1 ملی لٹر فی لٹر پانی یا کاپر آکسی کلورائڈ 2.5 گرام فی لٹر کے حساب سے سپرے کریں۔ مخلوط فصلوں کی کاشت سے پرہیز کریں۔ گوبر کی کھاد اور سبز کھاد استعمال کریں۔
پھل کا کیر ا(Fruit Drop) :
وجوہات:
کمزور صحت، موسمی تبدیلیاں، پانی کی کمی یا زیادتی غیر مناسب فصلوں کی کاشت بیماریوں اور کیڑوں کا حملہ کیرے کا سبب بنتے ہیں بیماری کی وجہ سے "Stem End Rot"ہوتا ہے۔ پھل ڈنڈی کی طرف سے گل جاتا ہے۔ جب درجہ حرارت 28تا30ڈگری سینٹی گریڈ ہو اور بارشیں زیادہ ہوں تو پھل ڈنڈی والی طرف سے گل کر رہ جاتا ہے۔
انسداد:
-
باغات کو پانی مناسب مقدار اور مناسب وقت پر لگائیں
-
باغات میں غیر موزوں فصلوں کی کاشت نہ کریں۔
-
ترشاوہ باغات میں ضرررساں کیڑوں کے حملے کی صورت میں سپرے کریں۔
-
بیماری کے حملے کی صورت میں پودوں کی متاثرہ اورخشک شاخیں کاٹ دیں۔ کاپر آکسی کلورائیڈ یاتھائیوفینٹ میتھائل یا ایزاکسی سٹروبن یا پائروکلوسٹرابن کے 15 سے 20 دن کے وقفہ سے 2 سپرے کریں۔
ترشاوہ پھل کا کوڑھ (Citrus Canker)
علامات:
-
یہ ایک جرثومی بیماری ہے۔
-
بیکٹیریا پتوں، شاخوں اور پھل پر حملہ آور ہوتا ہے۔
-
پتوں پر براؤن کھر درے دھبے بن جاتے ہیں جو انگلی لگانے سے چبھتے ہیں۔
-
شدید حملہ کی صورت میں ٹہنیوں اور پھل پر براؤن داغ بن جاتے ہیں جس کی وجہ سے پھل ایکسپورٹ نہیں ہوسکتا۔
-
جولائی، اگست کے دنوں میں جب درجہ حرارت20 تا30ڈگری سینٹی گریڈہو اور طوفانی بارشیں ہوں تو یہ بیماری بڑی تیزی سے پھیلتی ہے۔
-
لیف مائنریہ بیماری پھیلانے میں مددگار ہوتا ہے۔
-
بیکٹیریا پتوں پر ایک د وسال جبکہ ٹہنیوں پر 3 تا6 سال اور زمین میں دو ماہ تک زندہ رہ سکتاہے۔
انسداد:
-
زیادہ متاثرہ اقسام مثلا گریپ فروٹ، لیموں، لیمن اور مسمی کاشت نہ کریں۔
-
پودوں کے نیچے پتے اور متاثرہ شاخیں کاٹ کر تلف کریں۔
-
اس نرسری سے پودے حاصل کریں جو کینکر سے پاک ہو۔
-
نئی پھوٹ پر حملہ شدید ہوتا ہے۔ لہٰذا نئی پھوٹ پر کاپر والی ادویات اور اینٹی بائیوٹک سپرے کریں۔
-
ؒلیف مائنرکو کنٹرول کرنے کیلئے مناسب زہریں سپرے کریں۔
ترشاوہ پھلوں کا سبز پن یا بچ :(Greening)
یہ بیماری ایک بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتی ہے جو کہ سٹرس سلا(تیلا)کی مدد سے پودے میں داخل ہوکر پھیلتا ہے۔
علامات:
کسی خاص شاخ یا کسی ایک طرف سے پتوں کا پیلا ہونا یا زردی مائل سبز ہوناہے۔ پتے چھوٹے اور زنک کی کمی والی علامات پیدا ہوتی ہیں جن میں پتے کی رگیں موٹی اور ابھری ہوئی ہوتی ہیں۔ پھل چھوٹا اور چھلکا موٹا بے ذائقہ اور جوس کم ہوتا ہے پھل ایک طرف سے آخر تک سبز رہتا ہے۔ بیمار ی پیوندی لکڑی اورسٹرس سلا کی وجہ سے پھیلتی ہے۔ بیماری کے پھیلاؤ کیلئے مناسب درجہ حرارت 33-30 ڈگری سینٹی گریڈ اور نمی کا تناسب 48سے 58فیصد ہے۔ بیماری جون تا اگست کے مہینوں میں زیادہ پھیلتی ہے۔
انسداد:
-
صرف تصدیق شدہ بیماری سے پاک پودوں سے پیوند ی لکڑی حاصل کریں۔
-
بیمار پودوں کو ختم کرکے نئے پودے لگائیں۔
-
سٹرس سلا کو کنٹرول کریں کیونکہ ترشاوہ پھلوں میں سبز پن (Greening) کیلئے ویکٹر کا کام کرتا ہے۔ زمینوں میں نامیاتی مادہ کی مقدار کو بڑھایا جائے۔
سٹرس ٹر سٹیزا وائرس : (Citrus Tristeza Virus)
یہ بیماریCTV ایک وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں جٹی کھٹی اس بیماری کے خلاف قوت مدافعت رکھتا ہے۔
علامات:
پودے کا اچانک مرنا، پتوں کا خشک ہونا، پتوں کا کپ شکل بنانا، رگیں موٹی ہونا پھل بہت زیادہ لگتا ہے لیکن سائز چھوٹا رہتا ہے۔ اچانک پودا مرجھا جاتا ہے لیکن پھل ساتھ رہتا ہے۔ تنے کا چھلکا اندر کی طرف سے شہد کی مکھیوں کے چھتے کی طرح سوراخ دار ہوجاتا ہے۔
انسداد:
اس بیماری کے وائرس کو پھیلانے والی ویکٹرسست تیلا کو کنٹرول کیلئی تھایا میتھو کسمکا سپرے کریں۔
باغات میں گندم کاشت نہ کی جائے کیونکہ گندم پر براؤن سست تیلا اس بیماری کے پھیلاؤ کا موجب بنتا ہے۔
کیڑے
ترشاوہ پھلوں کے کیڑوں کا انسداد:
ترشاوہ باغات پر بہت سے ضرررساں کیڑے حملہ آور ہوتے ہیں جو نہ صرف باغات کی عمر گھٹا تے ہیں بلکہ پھل کی کوالٹی کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ایکسپورٹ کوالٹی کا پھل بہت کم پیداہوتا ہے۔ کیڑے اور بیماریوں کی وجہ سے 15 فیصد تک نقصان ہوتا ہے۔ اگر بروقت کنٹرول کر لیا جائے تو نہ صرف پودے کی عمر بڑھ جاتی ہے بلکہ پھل کا معیار اور مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے۔
ترشاوہ باغات کے اہم کیڑے درج ذیل ہیں۔
سٹرس سلا(Citrus Psylla) :
پہچان:
چھوٹا، پردار، بھورے رنگ کا کیڑا ہے، بچے چپٹے زرد رنگ کے ہوتے ہیں بالغ کیڑے بیٹھتے وقت پشت اٹھائے رکھتے ہیں۔
نقصان:
بالغ اور بچے پودے کے پتوں، شگوفوں اور پھلوں سے رس چوستے ہیں۔ جسم سے لیس دار مادہ خارج کرتے ہیں جس کی وجہ سے پتوں پر پھپھوندی لگ جاتی ہے۔ یہ کیڑا پودوں میں بچ یا Greeningپھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ زیادہ نقصان مارچ، اپریل اگست اور ستمبر میں ہوتا ہے۔
انسداد:
مارچ، اپریل اور اگست ستمبر میں جونہی کیڑا نظر آئے محکمانہ سفارشات کے مطابق زہر سپرے کیا جائے۔
تھرپس(Citrus Thrips)
پہچان:
چھوٹے اور نارنجی رنگ کے ہوتے ہیں۔ جب درجہ حرارت 14ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہو تو ان کی نشوونما ممکن ہوتی ہے۔ سال میں اس کی 8تا 12نسلیں پروان چڑھ سکتی ہیں۔
نقصان:
یہ پھولوں اور پھل کو نقصان دیتا ہے۔ یہ کیڑا پھول کی سبز پتیوں کے نیچے چھپا ہوتا ہے اور نرم پھل کی سطح پر دائرے کی شکل میں کھرچتا ہے جس سے پھل کی ڈنڈی کے ساتھ ایک دائرہ بن جاتا ہے جوکہ اس کی خاص پہچان ہے۔ عام لوگ اس نشان کو ”کڑا“ کہتے ہیں۔کلوروفینا پائر، ڈائی میتھوایٹ وغیرہ کا سپرے کریں۔
سرنگ بنانے والی سنڈی (Leaf Miner)
پہچان:
پروانہ چاندی کی طرح سفید جبکہ سنڈی ہلکی زرد رنگ کی ہوتی ہے جس کا سر بھورا ہوتا ہے جو پتوں کے اندر سرنگ بنا کر رہتی ہے۔
نقصان:
یہ کیڑا نئی پھوٹ پر حملہ آور ہوتا ہے۔ سنڈیاں پتوں کو اندر سے کھا کر ٹیڑھی سرنگ بناتی ہیں اور پتے چڑمڑ ہوجاتے ہیں۔ یہ کیڑا سٹرس کینکر بھی پھیلاتا ہے۔ لہذا اسے کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے۔
انسداد:
: نئی پھوٹ پر محکمہ زراعت پنجاب کے مقامی ماہرین کے مشورہ سے امیڈا کلو پرڈ، اسیٹا میپرڈ اور بائی لیوفینیوران زہروں کی سفارش کردہ مقدار کا سپرے کریں۔
لیموں کی تتلی(Lemon Butterfly)
پہچان:
تتلی کا رنگ سبز جبکہ پر کالے ہوتے ہیں جن پر پیلے دھبے ہوتے ہیں اور سنڈی 2تا3 انچ سائز کی ہوجاتی ہے۔
نقصان:
سنڈیاں نئی کونپلوں اور پتوں کو کھا جاتی ہیں۔ شاخیں اور کونپلیں ٹنڈ منڈ ہوجاتی ہیں۔ زیادہ حملہ مارچ اور اگست، ستمبر میں ہوتا ہے۔
انسداد:
نئی پھوٹ پر جونہی سنڈیاں نظر آئیں تومحکمہ زراعت پنجاب کے مقامی ماہرین کے مشورہ سے ایما میکٹن یا لیو فینیوران زہروں کی سفارش کردہ مقدار سپرے کریں۔ علاوہ ازیں نئی پھوٹ پر موجود لاروے اکٹھے کرکے مار دئیے جائیں۔
گدھیڑی(Citrus Mealy Bug)
پہچان:
یہ ایک رس چوسنے والا کیڑا ہے جس کے بچے شروع میں بہت باریک جوں کی طرح ہوتے ہیں زردی نما اور پیلے ہوتے ہیں جو بعد میں سفیدی مائل ہو جاتے ہیں۔
نقصان:
ہزاروں کی تعداد میں بچے انڈوں سے نکلتے ہی پودوں کے اوپر چڑھنا شروع کردیتے ہیں اور نرم و نازک شگوفوں پر بیٹھ کر رس چوسنا شروع کردیتے ہیں۔ پتے پیلے اور چھوٹے رہ جاتے ہیں۔ پھل پر حملہ کی صورت میں پھل پکنے سے پہلے ہی گر جاتا ہے۔ یہ کیڑا جسم سے لیس دار مادہ خارج کرتا ہے جس کی وجہ سے پتوں پر پھپھوندی لگ جاتی ہے اور پتوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔
انسداد:
اپریل، مئی میں مادہ زمین میں انڈے دیتی ہے جو دسمبر تک وہاں موجود رہتے ہیں ان انڈوں کو دسمبر سے پہلے تلف کریں۔ پودے کے تنے کے گرد 6انچ تک گوڈی کریں اور انڈوں پر زہریلا پاؤڈر سپرے کریں بچوں کو تنے پر چڑھنے سے روکیں جس کے لیے تنے کے گرد پلاسٹک شیٹ لپیٹ دیں۔ دسمبراور جنوری میں جب انڈوں سے بچے نکلنا شروع ہوجائیں تو محکمہ زراعت پنجاب کے مقامی ماہرین کے مشورہ سے کلور پائریفاس یا میلاتھیان یاسائپرمیتھرین زہروں کی سفارش کردہ مقدار سپرے کریں۔
سٹرس سکیلز(Citrus Scales)
پہچان:
یہ دو طرح کے کیڑے ہوتے ہیں۔ سرخ سکیلز اور کاٹنی سکیلز، سرخ سکیلز باریک نارنجی سرخ رنگ کے ہوتے ہیں جو گول اور چپٹے ہوتے ہیں ا ور پھل کے اوپر چمٹے ہوتے ہیں کاٹنی کش سکیلز ایک باریک کیڑا ہوتا ہے جو اپنے اوپر کپاس نما خول لپیٹ لیتا ہے اور ٹہنیوں سے چمٹا رہتا ہے۔
نقصان:
شاخوں اور پھل سے رس چوستے ہیں۔ پھل کے اوپر دھبے بن جاتے ہیں۔شدید حملہ کی صورت میں ٹہنیاں خشک ہوجاتی ہیں۔
انسداد:
جولائی تا نومبر حملہ شدید ہوتا ہے لہٰذا ان دنوں میں محکمہ زراعت پنجاب کے مقامی ماہرین کے مشورہ سے امیڈا کلوپرڈ یا اسیٹا میپرڈ زہروں کی سفارش کردہ مقدار سپرے کریں اور اس میں تھوڑا سا سرف ملا دیں تاکہ دوائی کیڑے کے جسم سے چمٹ جائے۔
پھل کی مکھی(Fruit Fly )
پہچان:
مکھی کا رنگ سرخی مائل بھورا ہوتا ہے۔ سنڈی کی رنگت سفید یا زرد اور پیٹ پر پیلے رنگ کی دھاریاں ہوتی ہیں۔
نقصان:
مادہ مکھی پھل کے اندر انڈے دیتی ہے جس سے سنڈیاں نکل کر پھل کے گودے کو کھا کر پرورش پاتی ہیں۔ ان کا فضلہ بھی گودے میں شامل ہوجاتا ہے اور پھل گل جاتا ہے۔ یہ مکھی پورا سال موجود رہتی ہے۔
انسداد:
گرا ہوا پھل روز اکٹھا کرکے زمین میں دبا دیں۔ جنسی کشش کے پھندے لگائیں جن کے لیے 6 پھندے میتھائل یو جنیال فی ایکڑ استعمال کریں۔محکمہ زراعت پنجاب کے مقامی ماہرین کے مشورہ سے سپائنو سیڈ زہر کی سفارش کردہ مقدار سپرے کریں۔
سفید مکھی(White Fly)
پہچان:
مکھی کا رنگ زردی مائل جسم اور پر سفید سفوف سے ڈھکے ہوتے ہیں۔
نقصان:
بالغ اور بچے پتوں کی نچلی سطح سے رس چوس کر نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کے جسم سے شہد چینی، جیسی رطوبت خارج ہوتی ہے جو پھپھوندی کے پھیلنے کا سبب بنتی ہے اور ضیائی تالیف کے عمل کو متاثر کرتی ہے۔
انسداد:
یہ مارچ، اپریل کے مہینے میں زیادہ نقصان کرتی ہے لہٰذا ان دنوں میں جونہی سفید مکھی نظر آئے تو محکمہ زراعت پنجاب کے مقامی ماہرین کے مشورہ سے بیپرو فیزین یا امیڈا کلوپرڈ یا اسیٹا میپرڈ زہروں کی سفارش کردہ مقدار سپرے کریں۔
سٹرس مائٹ(Citrus Mite)
پہچان:
یہ بہت ہی چھوٹی جسامت کا کیڑا ہے اور خوردبین سے بہتر نظر نہیں آتا۔ رنگ زردی مائل سرخ ہوتا ہے اوپر والی سطح پر گہرے بھورے داغ ہوتے ہیں۔ گرم اور خشک موسم میں زیادہ ہوتی ہے۔
نقصان:
بالغ اور بچے پتوں نازک پھلوں اور سبز چھلکے سے رس چوس کر نقصان پہنچاتے ہیں پھل کی سطح کھردری اور خراب ہوجاتی ہے۔پھل کھانے اور برآمد کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
انسداد:
پروپر گائیٹ2 ملی لٹر فی لٹرپانی یا ایما میکٹن 2ملی لٹر فی لٹر پانی کی شرح سے سپرے کریں
جڑی بوٹیوں کی روک تھام
آبپاشی
ترشاوہ باغات کیلئے آبپاشی:
ترشاوہ باغات کیلئے پانی کی کمی اتنی باعث نقصان نہیں جتنی کہ اس کی زیادتی ہے۔ تاہم پانی کی کمی اگر لمبے عرصہ تک برقرار رہے تو ترشاوہ باغات ضرور متاثر ہوتے ہیں۔ ترشاوہ باغات میں آبپاشی ایک انتہائی نازک مسئلہ ہے کیونکہ ہمارے باغبان آبپاشی کے مناسب اوقات کا خیال رکھے بغیر باغات کو ضرورت سے زیادہ پانی دے دیتے ہیں۔ مزید برآں ٹیوب ویل کے ذریعے دیا جانے والا پانی ترشاوہ پھلوں کیلئے نمکیات کی قابل برداشت حد سے بھی زیادہ نمکیات پر مشتمل ہوتا ہے جس کی وجہ سے ترشاوہ باغات انحطاط کاشکار ہو رہے ہیں۔ نمکیات والے پانی سے پیداوار اورپھل کی کوالٹی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ آبپاشی کیلئے درج ذیل باتوں کا خیال رکھ کر اس قسم کی صورت حال سے بچا جاسکتا ہے۔
-
پودے کے نیچے تین چار جگہ سے زمین 30تا 35 سینٹی میٹر کی گہرائی تک دیکھی جائے، اگر زمین نمدار نہ ہو تو فوراً پانی لگا دیں۔
-
جب پتے پیلے ہونا شروع ہوجائیں۔ خصوصاً موسم گرما میں اور بڑے پتے جھڑنے لگیں تو آبپاشی میں تاخیر پودے کو ختم کرسکتی ہے۔ لہٰذا پودے کو پانی دینے میں تاخیر نہ کریں۔
-
موسم گرما میں پھل کسی بھی طرف سے پیلے ہونا شروع ہوجائیں تو بھی باغ کو پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
-
پانی کی درست ضرورت کا اندازہ ٹینشو میٹر کے سکیل سے لگایا جاسکتاہے۔ جب سکیل 35ہندسہ سے زیادہ ہو تو درخت کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
-
اپریل سے ستمبر تک پودے کو پانی کی کمی نہ آنے دی جائے کیونکہ پھل نشوونما کے مرحلہ سے گزر رہا ہوتا ہے اوراس وقت پانی کی کمی پھل کے کیرے، وجوس کی کمی اور پھل کے ذائقہ کے خراب ہونے کا باعث بنتی ہے۔ پانی پودوں کی ضرورت کے مطابق دیا جائے۔
-
چھوٹے پودوں کو کم وقفہ سے ہلکا پانی دیا جائے اور ان کو پانی کی کمی نہ آنے دی جائے۔ بڑے پھلدار پودوں کو وافر مقدار میں مناسب وقفوں سے پانی دیا جائے۔ موسم گرمامیں بڑے پودوں کو 10دن بعد پانی دیں اور چھوٹے پودوں کو 3 یا 4 روز بعد پانی لگائیں جبکہ موسم سرما میں ایک ماہ بعد پانی لگائیں۔
-
ٹیوب ویل کا پانی ہونے کی صورت میں اس کا ترشاوہ پھلوں کے لیے موزوں ہونا بہت ضروری ہے۔ زیر زمین پانی میں نمکیات پی پی ایم سے زیادہ نہ ہوں بصورت دیگر نمکیات کے برے اثرات سے پودے انحطاط کا شکارہوجائیں گے۔
-
ہر پودے کو یکساں پانی ملنا چاہیے جس کے لیے زمین کا ہموار ہونا بہت ضروری ہے۔
-
آبپاشی سے پہلے موسمی پیشین گوئی ضرور دیکھیں اور بارش کی صورت میں آبپاشی مؤخر کریں۔
آبپاشی کے متعلق دیگر اہم امور:
پانی کی کمی:
پانی کی کمی خصوصاََ پھل کی بڑھوتری پر اثر انداز ہوتی ہے سب سے برا اثرپھل کا گر جانا ہے خاص طور پر جون میں پھل کا گرنا زیادہ تر پانی کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
پانی کی زیادتی:
زمین میں نمی کی زیادتی ترشاوہ پھلوں کیلئے نقصان دہ ہے کیونکہ زیادہ نمی سے جڑوں کا گلنا سٹرنا اور گوند بہنا جیسی بیماریاں پودوں پر اثر انداز ہوتی ہیں جن سے پودے کی صحتیابی بعض اوقات ناممکن ہو جاتی ہے اور پودابدلنا پڑتا ہے۔پانی کی زیادتی کی وجہ سے پودے کے پتے پیلے ہوجاتے ہیں اور وقت سے پہلے گر نا شروع ہوجاتے ہیں بعض اوقات کلورو سس یعنی ہرا روگ نامی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح برسیم کی کاشت بھی ترشاوہ باغات میں تنزلی کا سبب بنتی ہے کیونکہ موسم سرما میں پودوں کو پانی کی کم ضرورت ہوتی ہے جبکہ برسیم کو پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
آبپاشی کا دورانیہ:
جوان پودوں کیلئے موسم گرما میں اپریل سے ستمبر تک 10سے15دن تک پانی کا وقفہ رکھا جائے اور سردیوں میں یہ وقفہ بڑھا کر ایک ماہ یا اس سے بھی زیادہ تک کر دیا جائے لیکن اس میں زمین کی خاصیت اور آب و ہوا کے لحاظ سے کمی و بیشی کی جا سکتی ہے۔
پھل بننے کے بعد آبپاشی کا خصوصی خیال رکھا جائے۔تجربات سے یہ بات بھی مشاہدہ میں آئی ہے کہ ایک آلہ (ٹینشو میٹر) پودے کے پھیلاؤ کے اندر زمین میں 12انچ گہرائی تک لگا کر کی جا سکتی ہے۔
پانی کا معیار:
باغات میں گلی سڑی گوبر کی کھاد ڈالنے یاسبز کھاد کے استعمال سے زمین میں نامیاتی مادہ کی مقدار بڑھا کر کھارے پانی کے مضر اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
سوڈیم کاربو نیٹ کی مقدار:
اگر زائد سوڈیم کاربو نیٹ کی مقدار مخصوص حد سے یعنی 1.25ملی مول فی لٹر سے بڑھ جائے تو اس کے اثرات کو کم کرنے کیلئے جپسم استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ جپسم پاؤڈرشکل میں ڈالا جا سکتا ہے یا پتھر کی شکل میں کھال میں رکھ دیا جاتا ہے تاکہ پانی اس میں سے گزر کر کیلشیم کے نمکیات اپنے ساتھ لے جا کر زائد سوڈیم کاربو نیٹ کی مقدار کو کم کر ے۔بہتر ہے جپسم مقدار کا تعین زمینی تجزیہ کے تناظر میں سائل فرٹیلٹی لیبارٹری سے کروا لیا جائے۔
پانی لگانے کے طریقے:
کھلا طریقہ:
پاکستان میں باغات کو زیادہ تر کھلے پانی کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے اس سے پانی کا ضیاع ہونے کے ساتھ پودوں کو مختلف بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ بیماریوں کے جرثومے ایک پودے سے دوسرے پودے میں منتقل ہو سکتے ہیں اور مناسب حالات میں پودے پر حملہ کر کے شدید نقصان کا باعث بن سکتے ہیں ان بیماریوں میں گوند کا بہنا اور تنے کا گلنا سڑنا اہم ہیں۔دوسرا اس طریقے سے پانی زمین سے بخارات بن کر اڑ جاتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ پانی کا صحیح استعمال کر کے اسکو ضائع ہونے سے بچا یا جا ئے اور پانی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا یا جائے۔
کھالیوں کے ذریعے:
اس طریقہ میں قطاروں کے ساتھ متوازی دونوں اطراف (دائیں۔ بائیں) کھالیاں بنا کر پودوں کو آبپاشی کی جا سکتی ہے اس طرح پانی دونوں اطراف سے رس رس کر پودوں تک پہنچتا ہے نیز پانی براہ راست پودوں کے تنوں سے نہیں چھوتا جس سے نہ صرف بیماری لگنے کا خدشہ کم ہو جاتا ہے بلکہ تقریباََ 40فیصد سے زیادہ پانی کی بچت ہو سکتی ہے۔مگر موسم گرما میں ہر ہفتے ان نالیوں میں پانی لگائیں جبکہ موسم سرما اور بارش کی صورت میں وقفے کو بڑھا یا جا سکتا ہے۔
قطرہ قطرہ آبپاشی:
یہ طریقہ اب بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے پاکستان میں بھی فروغ پارہا ہے اس کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کے لیے تالاب بنایا جاتاہے جس میں پانی ذخیرہ کرکے ضرورت کے مطابق سوراخ شدہ پائپوں کے ذریعے پودوں تک پہنچایا جاسکتاہے تاہم اس کے لیے شروع میں اچھی خاصی رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اس کو چلانے کے لیے بجلی یا ڈیزل پمپ کی ضرورت پڑتی ہے۔حکومت پنجاب اس سلسلہ میں باغبانوں کو مناسب سبسڈی دے رہی ہے۔اس کے علاوہ باغبان ترشاوہ باغات میں غیر موزوں فصلیں کاشت کرنے کی بجائے فی ایکڑ زیادہ پودے لگا کر خاطر خواہ آمدنی حاصل کر سکتے ہیں۔
کھادیں
ترشاوہ باغات کی غذائی ضروریات:
ترشاوہ باغات سے بہتر پیداوار اور اچھی خاصیت کے حامل پھل کے حصول کیلئے غذائی ضروریات کو پورا کرنا بہت ضروری ہے۔ ہمارے باغبان حضرات ان اہم غذائی عناصر کو نہ تو مناسب وقت پر مہیا کرتے ہیں اور نہ ہی مناسب مقدار میں نامیاتی اور غیر نامیاتی کھادیں بشمول عناصر کبیرہ اور صغیرہ پودوں کو مہیا کرتے ہیں۔ نتیجتاً باغات کی پیداوار اور ان کی طبعی پیداواری عمر روبہ زوال ہے۔ باغبان حضرات کو ان تمام غذائی عناصر کی اہمیت اور مناسب مقدار میں ان کی فراہمی کاعلم ہونا بہت ضروری ہے
نامیاتی کھادیں:
ایسی کھاد جو کہ پودوں کے مختلف حصوں مثلاً پتوں، تنے اور جڑوں وغیرہ کے گلنے سڑنے سے حاصل ہو، یا جانوروں کا فضلہ مثلاً گوبر وغیرہ نامیاتی کھاد کہلاتی ہے۔ یہ کھادیں زمین کی زرخیزی کو برقرار رکھنے کیلئے زمانہ قدیم سے استعمال ہورہی ہیں۔پولٹری کی کھاد باغات کے لئے زیادہ موزوں نہیں ہے۔ زمین کیلئے نامیاتی کھاد کی اہمیت درج ذیل سطور سے واضح ہوجائے گی۔
-
یہ زمینی ساخت کو بہتر بناتی ہیں اور زمینی زرخیزی میں اضافہ کرنے والے اہم بیکٹیریا کی افزائش میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔
-
زمین میں نامیاتی مادہ کی مقدارمیں اضافہ کرتی ہیں جس کی ہماری زمینوں میں سخت کمی ہے۔
-
زمین کے نکاسی آب کے نظام کو بہتر بناتی ہیں اور زمین کی سختی (Soil Compactness) کو ختم کرکے جڑوں کے پھیلاؤ اور ان کی نشوونما کو بہتر بناتی ہیں۔
-
پودے کے لیے اہم غذائی اجزاء کا حصول آسان بناتی ہیں۔
غیر نامیاتی کھادیں:
غیر نامیاتی کھادوں سے مراد ایسی کھادیں ہیں جو کہ مصنوعی طریقہ سے تیارکی جاسکتی ہیں۔ اور وہ اہم غذائی عناصر پودے کو فوری طور پر مہیا کرتی ہیں۔ غیر نامیاتی کھادیں زمین کی زرخیزی، فصلوں کی تیزی سے بڑھوتری اور ان کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ تمام فصلوں اور پھلدار پودوں کو غیر نامیاتی کھادوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ نامیاتی کھادیں فوری طور پر پودے کو غذائی عناصر مہیا نہیں کرتیں۔ نامیاتی کھادیں عناصر کبیرہ و صغیرہ پر مشتمل ہوتی ہیں۔ عناصر کبیرہ میں نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاش جبکہ عناصر صغیرہ میں زنک،آئرن، کاپر، میگنیشیم، میگانیز اور بوران شامل ہیں۔
مناسب ہے کہ عناصر صغیرہ کا استعمال بھی ہرسال کرنا چاہیے۔ زمین میں دینے کی صورت میں دسمبر، جنوری میں تمام عناصر صغیرہ ڈال دیں اورسپرے کی صورت میں 4مراحل پر سپرے کے لئے موزوں ہیں
-
پھوٹ شروع ہونے سے پہلے
-
پھل بننے کے فوراً بعد
-
پھل کی بڑھوتری کے دوران
-
جب پھل رنگت تبدیل کرنا شروع کرے
سپرے کے لئے درج ذیل ترکیب استعمال کریں فی100لٹر پانی کے حساب سے سپرے کریں
کاپر سلفیٹ(نیلا تھوتھا) |
350گرام |
زنک سلفیٹ |
300گرام |
میگانیز سلفیٹ |
150گرام |
میگنیشیم سلفیٹ |
250گرام |
بوران |
50گرام |
نوٹ: اس محلول کی pHمعتدل کرنے کے لئے چونے کا پانی استعمال کریں۔
مختلف کھادوں میں غذائی اجزاء کی مقدار:
نام کھاد |
وزن بوری (کلوگرام) |
غذائی اجزاء (فیصد) |
غذائی اجزاء کلوگرام (فی بوری) |
||||||
|
نائٹروجن
|
فاسفورس
|
پوٹاش
|
نائٹروجن
|
فاسفورس
|
پوٹاش
|
|||
یوریا |
50 |
46 |
- |
|
23 |
- |
- |
||
نائٹروفاس |
50 |
22 |
20 |
|
11 |
10 |
- |
||
کیلشیم امونیم نائٹریٹ(CAN) |
50 |
26 |
- |
|
13 |
- |
- |
||
سنگل سپر فاسفیٹ(پی ایس پی)18% |
50 |
- |
18 |
|
- |
9 |
- |
||
ڈائی امونیم فاسفیٹ(ڈی اے پی) |
50 |
18 |
46 |
|
9 |
23 |
- |
||
مونو امونیم فاسفیٹ(ایم اے پی) |
45.5 |
16 |
52 |
|
8 |
26 |
- |
||
پوٹاشیم سلفیٹ(ایس او پی) |
50 |
- |
- |
50 |
- |
- |
25 |
||
پوٹاشیم کلورائیڈ(ایم او پی) |
50 |
- |
- |
60 |
- |
- |
30 |
||
این پی کے زرخیز SOPکے ساتھ |
50 |
15 |
15 |
15 |
7.5 |
7.5 |
7.5 |
||
متوازن کھادوں کے استعمال کی سفارشات:
ترشاوہ باغات سے زیادہ سے زیادہ پیداوار اور اچھی کوالٹی حاصل کرنے کے لیے نامیاتی اور غیر نامیاتی کھادوں کا مناسب اور متوازن استعمال اشد ضروی ہے۔ ماہرین نے اس بارے میں پودے کی عمر کے لحاظ سے درج ذیل سفارشات مرتب کی ہیں۔ یہ سفارشات روایتی تعداد میں لگائے گئے باغات کے لئے ہیں۔
پودے کی عمر (سال) |
گوبر کی کھاد (کلو گرام) |
نائٹروجن (گرام) |
فاسفورس (گرام) |
پوٹاش(گرام) |
1 |
10 |
100 |
50 |
50 |
2 |
20 |
200 |
100 |
100 |
3 |
30 |
300 |
150 |
150 |
4 |
40 |
400 |
200 |
200 |
5 |
50 |
500 |
250 |
250 |
6 |
50 |
600 |
300 |
300 |
7 |
50 |
700 |
350 |
350 |
8 |
50 |
800 |
400 |
400 |
9 |
50 |
900 |
450 |
450 |
10 |
50-80 |
1000 |
500 |
500 |
فاسفورس اور پوٹاش کی پوری خوراک ماہ دسمبر تا فروری میں ڈالیں۔ کھاد ڈالنے میں احتیاط کریں کہ پودے کے تنے سے ایک فٹ ہٹ کر کھاد پودوں کے گھیرے میں ڈالیں اور ہلکی گوڈی کردیں۔ دسمبر جنوری میں عام طور پر پھل پودوں پر موجود ہوتا ہے اور باغ مالکان ٹھیکیدار کے کہنے پر بروقت کھاد نہیں دیتے۔ اس صورت میں باغبان کو چاہیے کہ وہ پودوں کے گھیرے کی چھلائی کرکے کھاد ڈال دیں اور گوڈی کردیں اور پھر پانی کی باری آنے پر باغ کو پانی لگا دیں۔ بعض اوقات نائٹروجن اور فاسفورس کی کمی کی صورت میں 1200گرام نائٹروجن اور 750گرام فاسفورس فی پودا بھی سالانہ ڈالی جاسکتی ہے۔
کٹائی
ترشاوہ پھلوں کی برداشت،درجہ بندی اور مارکیٹنگ:
-
ترشاوہ پھلوں کی برداشت میں ابتدائی مرحلے میں دو چیزوں کا خیال رکھنا اہم ہے۔
-
پھل کی فعلیاتی پختگی(Physiological maturity)
-
پھل کی تجارتی پختگی(Commercial maturity)
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ برداشت کرتے وقت پھل کو ڈنڈی سے توڑاجاتاہے۔قینچی سے ڈنڈی اور پتوں سمیت توڑ لیا جاتا ہے یا ٹہنیاں ہلا ہلا کر پھل کو زمین پر گرا یاجاتا ہے اس طرح سے ایک تو پھل زخمی ہو جاتا ہے اور دوسرایہ کہ درخت سے پتوں کا بہت زیادہ نقصان ہو جاتا ہے یہ عمل ضیائی تالیف میں کمی کی وجہ سے اگلے سال کی فصل پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ یہ چیز بھی مشاہدہ میں آئی ہے کہ پھل کو نمدار موسم میں بھی توڑ لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے پھل اپنی قدرتی مضبوطی، چھلکا پر زخم آنے کی وجہ سے برقرار نہیں رہ سکتا اور بعض اوقات چھلکا پھٹ جانے کی وجہ سے یا زخمی ہونے کی وجہ سے اس پر مختلف بیماریاں حملہ کرتی ہیں جو کہ پھل کے گلنے سڑنے کا باعث بنتی ہیں۔ اس سے بچنے کیلئے پھل کو خشک موسم میں قینچی کی مدد سے احتیاط کے ساتھ ڈنڈی کو پھل کے شانوں کے بالکل قریب سے کاٹنا چاہیے تاکہ دوسرے پھل ڈنڈی کی وجہ سے زخمی نہ ہو سکیں۔ مندرجہ بالا امور میں احتیاط نہ ہونے کی وجہ سے منزل مقصود پر پہنچنے سے پہلے کم از کم 20فیصد تک پھلوں کا نقصان ہو جاتا ہے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پھلوں کو بیرونی الائشوں سے محفوظ رکھنے کیلئے صاف ستھرے تھیلوں میں ڈالنے کی بجائے عام ٹوکریوں میں ڈال دیا جاتا ہے یا کھاد والے تھیلوں میں پھل کو ڈنڈی سمیت ڈالا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے پھل کی خاصیت خصوصاََ جلد متاثر ہوتی ہے پھلوں کی ترسیل کے دوران یہ چیز بھی مشاہدہ میں آئی ہے کہ انہیں بغیر مناسب پیکنگ کے ٹرالیوں اور بیل گاڑیوں کے ذریعے ڈھیر لگا کر منڈیوں تک پہنچا یا جاتا ہے جس کی وجہ سے پھل گردو غبار دوسرے ناموافق عوامل سے محفوظ نہیں رہ پاتا اور اسکی خاصیت دوران ترسیل بھی متاثر ہوتی ہے اور منزل مقصود تک پہنچے والا پھل خراب حالت میں پہنچتا ہے۔
اب جبکہ پھلوں کی خاصیت کا بہتر ہونا اور بین الاقوامی معیارات پر پورا اترناانتہائی ضروری ہے۔اس لیے پھلوں کی برداشت اور سنبھال میں جدید سفارشات پر عمل کرنا ضروری ہے۔
پاکستان میں خصوصاََ پنجاب کے کنو کی پیداوار کے اضلاع میں نومبر کے آخر میں پھل کی رنگت تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسا ان دنوں میں رات کے وقت درجہ حرارت کم ہونے کے دوران اتھیلین گیس کے پیدا ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ان دو چیزوں کے ملاپ کی وجہ سے کنو کا رنگ بہت بہتر ہوتا ہے۔ ایتھا ئلین ترشاوہ پھلوں میں اگرچہ کم پیدا ہوتی ہے مگر اسکا اثر ان پھلوں پر بہت زیادہ ہوتا ہے۔
ذخائر
مختلف ترشاوہ پھلوں کیلئے سٹور کا درجہ حرارت، شرح نمی اور شیلف لائف:
پھل |
درجہ حرارت(سینٹی گریڈ) |
شرح نمی(فیصد)
|
شیلف لائف(دن) |
گریپ فروٹ |
10-15 |
85-90 |
42-56 |
مینڈرین(کنو) |
2-4 |
90-95 |
90-120 |
اورنج (مالٹا) |
0-9 |
85-90 |
30-180 |
لائم |
9-10 |
85-90 |
42-56 |
کمکاٹ |
4-5 |
90-95 |
14-28 |